’تمام یوکرائنی شہریوں کے لیے نرم شرائط پر روسی شہریت زیرغور‘
27 اپریل 2019چینی دارالحکومت سے ہفتہ ستائیس اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق روسی صدر پوٹن نے بیجنگ میں ’ون بیلٹ، ون روڈ‘ نامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر وہاں اپنی موجودگی کے دوران کہا، ’’ہم واقعی اس بارے میں سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں کہ یوکرائن کے تمام شہریوں کے لیے روسی شہریت کے حصول کے عمل میں زیادہ آسانیوں کی اجازت دے دیں اور ایسا صرف ریپبلک ڈونَیٹسک اور ریپبلک لُوہانسک کے شہریوں کے لیے ہی نہ کیا جائے۔‘‘
اے ایف پی کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ اسی ہفتے کے اوائل میں روسی صدر نے ایک ایسے حکم نامے پر دستخط کر دیے تھے، جس کے تحت ڈونَیٹسک اور لُوہانسک کے شہریوں کے لیے روسی پاسپورٹوں کے حصول کے عمل کو بہت آسان بنا دیا گیا ہے۔
ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ صدر ولادیمیر پوٹن نے یوکرائن کے جن علاقوں کا ریپبلک ڈونَیٹسک اور ریپبلک لُوہانسک کہہ کر ذکر کیا، وہ دراصل سابق سوویت یونین کی جمہوریہ یوکرائن کے مشرق میں واقع دو ایسے خطے ہیں، جہاں مسلح روس نواز علیحدگی پسند کییف سے اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہی وہ تنازعہ ہے جو یوکرائن کی جنگ کی وجہ بنا اور جس کے باعث ماسکو اور کییف کے مابین گزشتہ چند برسوں سے شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔
روسی اقدام کا دفاع
آج ہفتے کے روز بیجنگ میں روسی صدر پوٹن نے بدھ چوبیس اپریل کے اپنے اس فیصلے کا دفاع بھی کیا، جس کے تحت انہوں نے مشرقی یوکرائن کے شہریوں کے لیے روسی شہریت کا حصول آسان بنا دیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد صدر پوٹن نے جمعرات پچیس اپریل کو روسی شہر ولادی ووستوک میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کے ساتھ اپنی سربراہی ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ کریملن نے مشرقی یوکرائن کے شہریوں کے لیے روسی شہریت کے آسان حصول کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ ان فیصلوں سے مختلف نہیں ہے، جو یورپی یونین کی مختلف ریاستیں بھی کرتی چلی آ رہی ہیں۔
رومانیہ اور بلغاریہ کی مثالیں
اس کی دو مثالیں دیتے ہوئے روسی صدر نے کہا تھا کہ یورپی یونین کی رکن ریاستوں کے طور پر رومانیہ اور بلغاریہ کی طرف سے بھی ایسے فیصلے کیے جا چکے ہیں، جن کے تحت انہوں نے اپنے اپنے ریاستی علاقوں سے باہر رہنے والے افراد کو رومانیہ اور بلغاریہ کی شہریت دینے کے فیصلے کیے تھے۔ ساتھ ہی روسی صدر نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ یہ بات ان کے بقول بظاہر بڑی عجیب تھی کہ یوکرائن کی حکومت مشرقی یوکرائن کے شہریوں سے متعلق کریملن کے فیصلے پر غصے کا اظہار کر رہی تھی۔
روسی صدر چاہتے کیا ہیں؟
صدر پوٹن کے بدھ چوبیس اپریل کے اعلان پر کئی ممالک، خاص کر جرمنی اور فرانس نے مشترکہ طور پر کھل کر تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ روسی صدر نے مشرقی یوکرائن کے جن دو علیحدگی پسند علاقوں کے عوام کے لیے روسی شہریت کے حصول میں نرمی کا اعلان کیا ہے، وہ غیر متنازعہ طور پر یوکرائن کے ریاستی علاقے کا حصہ ہیں اور ان سے متعلق ماسکو کو ایسا کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔
ساتھ ہی برلن میں جرمن دفتر خارجہ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا، ’’ہم فرانس کی حکومت کے ساتھ مل کر اس روسی صدارتی حکم نامے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ کریملن کا یہ اقدام یوکرائن کے تنازعے سے متعلق منسک میں طے پانے والے معاہدے کی روح اور مقاصد کے سراسر منافی ہے اور اس حقیقت کی نفی بھی کہ یوکرائن کے تنازعے میں مزید شدت پیدا کرنے کے بجائے دراصل اس وجہ سے پائی جانے والی کشیدگی کو کم کیا جانا چاہیے۔‘‘
م م / ع ح / اے ایف پی