تیونس میں انقلاب، توقعات پوری نہ ہونے پر عوام مایوس
12 اگست 2011یہ قدم ایسے موقع پر اٹھایا گیا جب تیونس کے عوام ملک کے سابق مقتدر حلقے کی ایک اعلٰی سطحی شخصیت سعیدہ العقربی کے مقدمےکا سامنا کیے بغیر پیرس فرار ہونے کے دھچکے سے سنبھلنے کی کوشش کر رہے تھے۔
سات ماہ قبل تیونس کے صدر زین العابدین بن علی کی حکومت کا عوامی احتجاج کے نتیجے میں تختہ الٹے جانے کے بعد عرب دنیا کے اکثر ملکوں میں ’عرب بہار‘ کہلانے والے مظاہرے شروع ہو گئے تھے، مگر تیونسی باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک انصاف کے منتظر ہیں۔
سعودی عرب میں جلاوطنی اختیار کرنے والے بن علی اور ان کی اہلیہ لیلٰی طرابلسی نے واپس آنے سے انکار کر دیا ہے۔ زین العابدین بن علی کو ان کی غیر حاضری میں سزا سنائی گئی ہے، جس سے تیونسی عوام میں مایوسی پیدا ہوئی ہے کیونکہ وہ 23 سال تک ان کے دور اقتدار میں سیاسی جبر و تشدد، وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی بدعنوانی اور انتہا درجے کی اقربا پروری پر ان کا احتساب چاہتے ہیں۔
سمیع نامی ایک ٹیکسی ڈرائیور نے کہا، ’’بن علی کو ان کی غیر حاضری میں سزا سنانا ایک کھوکھلا قدم ہے۔ انہیں اب واپس لانا مشکل ہے مگر انہیں کم از کم ملک میں موجود بدعنوانی کی علامات کے خلاف تو مقدمہ چلانا چاہیے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ حسنی مبارک تعریف کے لائق ہیں کہ وہ ملک میں موجود رہ کر اپنے خلاف مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ زین العابدین تو ملک چھوڑ کر ہی چلے گئے۔
سابق وزیر انصاف کے ملک سے فرار کی کوئی سرکاری وضاحت نہیں کی گئی تاہم ان کے خلاف مقدمہ ابھی ختم نہیں ہوا۔
یہ بھی کوئی اتفاق نہیں کہ العقربی استغاثہ کی جانب سے اپنے خلاف سفری پابندیاں عائد کیے جانے سے چند روز پہلے ملک سے فرار ہو گئیں۔ تیونسی باشندوں کا کہنا ہے کہ انہیں غالباﹰ اس بارے میں پہلے ہی خبردار کر دیا گیا تھا۔ سعیدہ العقربی بن علی کی اہلیہ سے کافی قریب تھیں اور ان کے اندرونی حلقے میں شامل تھیں۔
تجزیہ کاروں اور سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ بن علی کے سابق اتحادی اب بھی مقتدر عہدوں پر فائز ہیں اور وہ اپنے دوستوں کو بچانے اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کی پس پردہ کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایک نوجوان صحافی اور متحرک بلاگر سفیان شورابی نے کہا، ’’اس وقت تیونس کے انقلاب کے حامیوں اور سابق حکومت کے بعض عناصر کے درمیان کشمکش جاری ہے، جو اپنے سیاسی و اقتصادی مفادات کو تحفظ دینے کے لیے کوشاں ہیں۔‘‘
تیونس کی ایک عدالت نے جس روز سابق سکیورٹی سربراہ علی ال شریعتی اور بن علی اور لیلٰی طرابلسی کے 23 رشتہ داروں پر مقدمہ شروع کیا، تو اسی شاہراہِ حبیب بورقیبا پر بہت سے مظاہرین جمع ہو گئے، جو کہ جنوری میں بن علی کی اقتدار سے بے دخلی سے پہلے عوامی مظاہروں کا مرکزی مقام تھا۔ ان تینوں شخصیات کے رشتہ داروں کو ایئر پورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا، جب وہ نقدی اور زیورات کے ہمراہ ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
مایوسی میں اضافہ
تیونس کے عوام کا کہنا ہے کہ بن علی کی باقیات نے ان کا انقلاب چرا لیا ہے۔ تیونس کے قومی تھیٹر کی سیڑھیوں پر بیٹھے 39 سالہ ڈاکٹر نعمان القادری نے کہا، ’’وہ بدنام مجرموں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ ہماری عدلیہ میں پائی جانے والی گہری خرابیوں کی نشانیاں ہیں۔ ان انقلاب مخالف عناصر کو ہم عوام کے سوا روکنے والا اور کوئی نہیں۔‘‘
ایک کروڑ کی آبادی والے ملک تیونس میں بیس لاکھ افراد آر سی ڈی پارٹی کے رکن ہیں، جس کے ذریعے بن علی اتنے سال تک اقتدار کے پر براجمان رہے۔ انقلاب کے بعد ان پارٹی اراکین نے اپنی سابقہ وفاداریوں پر خاموشی کا پردہ تان رکھا ہے مگر وہ ابھی بھی ملک میں موجود ہیں۔
اگرچہ بن علی کے خود پسندانہ دور اقتدار کے خلاف جدوجہد میں وکلاء اور عدلیہ کا بھی بڑا حصہ رہا ہے، مگر تیونس کے عوام میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ بن علی کے ساتھ سیاسی ہمدردیاں عدالتوں کے فیصلوں پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں۔ عوام کا خیال ہے کہ اگر وہ اب تک حاصل ہونے والی کامیابیوں کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، تو انہیں دباؤ برقرار رکھنا پڑے گا۔ اسی لیے عدالتی نظام میں تبدیلیوں کے لیے مزید مظاہروں کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: مقبول ملک