تیونس میں نئی تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے
22 اکتوبر 2011تیونس میں ہونے والے انتخابات کو کئی اعتبار سے تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم ان میں دو وجوہات بہت اہم ہیں۔ ایک تو عرب ممالک میں جمہوریت کے حق میں چلنے والی تحریکوں کا آغاز اسی ملک سے رواں سال جنوری میں ہوا تھا۔ ساتھ ہی 1956ء میں فرانس سے آزاد ہونے کے بعد یہ پہلے انتخابات ہیں، جن میں متعدد سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں۔ عرب ممالک میں تیونس کی حیثیت ایک ماڈل ملک کی بھی رہی ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے ہی قانونی طور پر یہاں مردوں اور خواتین کو برابر کے حقوق حاصل رہے ہیں۔ تاہم حقیقت میں فوقیت مردوں کو ہی حاصل رہی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اسلام پسند قوتیں برابری کے اس قانون کو ختم کروانے کی کوشش کر سکتی ہیں۔ اسی وجہ سے یاسمین انقلاب کے بعد سےکئی خواتین بڑھ چڑھ کر سیاست مں حصہ لے رہی ہیں۔
بین الاقوامی برادری تیونس کے انتخابات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ حركت النہضۃ اسلاميہ نامی جماعت ہے۔ تیونس جیسے سیکیولر معاشرے میں اگر یہ اعتدال پسند اسلامی جماعت کامیابی حاصل کرتی ہے تو اس کا گہرا اثر خطے میں موجود اسی طرح کی دیگر جماعتوں پر بھی پڑے گا۔ النہضۃ کے سربراہ راشد غنوشی نے کہا ہے کہ وہ انتخابی نتائج کو تسلیم کریں گے۔ زین العابدین بن علی کے دور میں اس جماعت پر پابندی تھی تاہم تیونس کی عبوری حکومت نے اسے سیاست میں دوبارہ فعال کردار ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔
گزشتہ شب تیونس میں انتخابی مہم باقاعدہ طور پر اختتام پذیر ہوئی اور الیکشن کمیشن کے مطابق ہفتے کو کسی قسم کی کوئی سیاسی سرگرمی نہیں ہو گی۔ تیونس کے 7.2 ملین رجسٹرڈ ووٹرز 217 ممبران کی اسمبلی کا انتخاب کریں۔ انتخابات سے قبل کرائے جانے والے جائزوں کے مطابق النہضۃ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرسکتی ہے جبکہ پروگریسو ڈیموکریٹک پارٹی کے دوسرے نمبر پر رہنے کے امکانات ہیں۔ اس دوران 40 ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ 13 ہزار مقامی جبکہ 6 سو غیر ملکی مبصرین انتخابی عمل کا جائزہ لیں گے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: ندیم گِل