جامعہ نعیمیہ میں خود کش حملہ: مفتی نعیمی ہلاک، طالبان مخالف مظاہرے
12 جون 2009اس سانحے میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 8 کے قریب بتائی جا رہی ہے۔ لاہور کے ضلعی رابطہ افسر سجاد بھٹہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ شہر میں سیکیورٹی ہائی الرٹ ہے اور جامع نعیمیہ میں بھی حفاظتی انتظامات کے تحت پولیس اہلکار تعینات کئے گئے تھے۔ ان کے مطابق نماز جمعہ کے بعد ڈاکٹر سرفراز نعیمی اپنے آفس کے جس کمرے میں لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے تھے اس کا ایک دروازہ باہر گلی میں بھی کھلتا ہے۔ اس دروازے کی سیکیورٹی جامع نعیمیہ کے لوگ خود ہی سر انجام دیتے ہیں۔ ان کے مطابق خود کش بمبار ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے عقید ت مندوں کے ہمراہ لائن میں لگ کر اسی دروازے سے مسجد میں داخل ہونے میں کامیاب ہوسکا۔
دھماکے کے فوراً بعد جائے حادثہ پر پہنچے والے ریسکیو سروس 1122 کے ایمرجنسی آفیسر ڈاکٹر رضوان نے بتایا کہ دھماکہ درمیانے درجے کی طاقت والا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ دھماکہ مسجد کے صحن میں ہوتا تو اس سے بہت زیادہ نقصان ہو سکتا تھا۔
جامع نعیمیہ اور اس کے گردو نواح کے تمام علاقوں میں سوگ کا سماں ہے۔ دوکانیں بند ہو چکی ہیں۔جائے واردات پر خون کے چھینٹے اور تباہی کے اثرات اب بھی موجود ہیں۔ مختلف علاقوں سے ڈاکٹر نعیمی کے عقید ت مند جمع ہو رہے ہیں۔ مسجد کے ٹوٹے ہوئے شیشے بھی جگہ جگہ بکھرے دکھائی دے رہے ہیں۔ دھماکے کے فوراً بعد پولیس اور فوج کے دستوں نے اس علاقے کو گھیرے میں لے لیا تھا اور عام لوگوں کو مسجد کی طرف جانے سے روک دیا گیا تھا۔
اس موقع پر پولیس اور وہاں جمع ہونے والے لوگوں میں ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ بعض لوگوں کی طرف سے پولیس کی جانب سے جامع نعیمیہ کے لئے کئے جانے والے حفاظتی انتظامات پر بھی شدید اعتراضات کئے جا رہے ہیں۔
پنجاب کے مختلف علاقوں میں اس سانحے کے بعد احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔ لاہور کی مال روڈ پر جامع نعیمیہ کے طلبہ نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور طالبان کے خلاف زبردست نعرے بازی کی۔ جبکہ داتا دربار کے سامنے بھی دینی مدرسوں کے طلبہ نے احتجاجی مظاہرے کئے۔ لاہور کے تاجروں نے اس واقعے کے خلاف ہفتے کے روز شہر بھر میں مکمل ہڑتال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ پنجاب حکومت کی طرف سے صوبے میں ہفتے کے روز عام تعطیل کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن نے لاہور اور نوشہرہ میں ہونے والے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے پیروکاروں سے پر امن رہنے کی اپیل کی ہے۔
ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی نعش پوسٹ مارٹم کے لئے مقامی ہسپتال کے ڈیڈ ہاؤس میں پہنچا دی گئی ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی ہسپتال پہنچے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے صدر وزیر اعظم اور سیاسی و مذہبی رہنماؤں کی طرف سے اس خودکش حملے کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔
اس افسوس ناک سانحے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ جامع نعیمیہ کے قریبی علاقے سے ایک مشکوک شخص کی گرفتاری کی بھی اطلاعات مل رہی ہیں لیکن پولیس حکام فی الحال اس اطلاع کی تصدیق کرنے سے گریز کر رہیے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی طالبان کے خلاف تھے اور وہ مالا کنڈ آپریشن کے حوالے سے پاک فوج کی حمایت کر رہے تھے اور انہوں نے خود کش حملوں کے غیر اسلامی ہونے کا فتویٰ بھی جار ی کیا تھا۔
رپورٹ : تنویر شہزاد، لاہور
ادارت : عاطف توقیر