جرمنی اور قزاقستان کے درمیان اربوں یورو کے معاہدے
9 فروری 2012وسطی ایشیائی ریاست قزاقستان کے صدر نور سلطان نذربائیف نے جب جرمن دارالحکومت برلن میں چانسلر انگیلا میرکل سے ملاقات کی تو دوران ملاقات جرمن قائد حکومت نے قزاقستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کے بارے میں اپنی تشویش سے مہمان صدر کو آگاہ کیا۔ دونوں لیڈروں نے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے بھی خطاب کیا۔ اس خطاب میں قزاقستان اور جرمن اقتصادی تعلقات پر لیڈروں نے اظہار خیال بھی کیا۔
نیوزکانفرنس میں انگیلا میرکل نے قزاقستان اور یورپی یونین کے درمیان پارٹنرشپ معاہدے کی حمایت کا بھی اعلان کیا۔ چانسلر میرکل کا کہنا تھا کہ صرف جرمنی ہی نہیں قزاقستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کا خواہاں بلکہ سارا یورپ قزاقستان کے ساتھ بہتر تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔ پریس کانفرنس میں جرمن چانسلر نے بتایا کہ صدر کے ساتھ ملاقات کے دوران انسانی حقوق کی صورت حال پر بھی بات کی گئی اور مہمان صدر کو جرمن تشویش سے آگاہ کیا گیا۔ میرکل کا کہنا تھا کہ جرمن خارجہ پالیسی اقدار پر مبنی ہے اور جب کسی ملک کے ساتھ اقتصادی روابط کی بات کی جاتی ہے تو وہاں انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کی صورت حال کو بھی دیکھا جاتا ہے۔
پریس کانفرنس میں قزاقستان کے صدر نور سلطان نذر بائیف نے انسانی حقوق اور جمہوریت کے حوالے سے جرمن خدشات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ایک دو دہائیوں کے بعد ان کے ملک میں صحیح جمہوریت کو فروغ حاصل ہو جائے گا۔ نذر بائیف نے انسانی حقوق کی رپورٹس کو بھی مسترد کردیا۔ صدر نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ انہیں صحت کے مسائل کا سامنا نہیں ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں نور سلطان نذز بائیف کے میڈیکل چیک اپ کی مکمل رپورٹ عام کی گئی تھی۔
قزاقستان کے صدر نور سلطان نذر بائیف کی جرمنی آمد کے موقع پر مختلف جرمن کمپنیوں نے وسطی ایشیائی ریاست کے ساتھ تین ارب یورو کے پچاس معاہدےکیے۔ ان میں سے ایک معاہدہ بھاری مشینری کے بڑے جرمن ادارے سیمنز اور قزاقستان ریلوے کے درمیان طے پایا۔ سیمز اس معاہدے کے تحت سابق سوویت یونین کی جمہوریہ کے ریلوے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں معاونت کرے گا۔ بعض چھوٹی جرمن کمپنیوں نے بھی وسطی ایشیائی ریاست کے ساتھ اپنی اپنی ڈیل کو حتمی شکل دی۔ قزاقستان کے ساتھ معاہدے کرنے والی کمپنیوں میں گیس کے شعبے میں کام کرنے والی کمپنی لنڈے (Linde)، کیمیاوی مرکبات میں پیش پیش جرمن کمپنی لینکسس (Lanxess) اور فولاد سازی کا بڑا ادارہ تھیسن کرُوپ (ThyssenKrupp) بھی شامل ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: عاطف بلوچ