جرمنی: بے روزگار تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ
9 مارچ 2016جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق یہ سروے آئی اے بی نامی ادارے نے وفاقی دفتر روزگار کے لیے کیا تھا۔ اس حالیہ جائزے کے مطابق گزشتہ برس گیارہ لاکھ سے زائد نئے پناہ گزینوں کی جرمنی آمد کے بعد ملک میں بے روزگار تارکین وطن کی تعداد میں ساٹھ فیصد کے قریب اضافہ ہوا ہے۔
رضاکارانہ طور پر واپس جاؤ، بائیس سو یورو ملیں گے
یورپ میں پناہ کے متلاشیوں میں اڑتالیس ہزار پاکستانی بھی
وفاقی دفتر روزگار کے مطابق بے روزگار پناہ گزینوں کی اکثریت کا تعلق اریٹریا، عراق، ایران، نائجیریا، پاکستان، صومالیہ اور شام سے ہے۔ جائزے کے مطابق فروری کے مہینے میں بے روزگار مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ دس ہزار سے زائد تھی جب کہ گزشتہ برس اسی مہینے کے دوران یہ تعداد 65 ہزار تھی۔
آئی اے بی کے ماہرین نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے، ’’مہاجرین کو جرمنی کی روزگار کی منڈی تک پہنچانے میں وقت لگے گا۔‘‘ تارکین وطن کو روزگار کی فراہمی میں جو رکاوٹیں درپیش ہیں ان میں پیچیدہ دفتری طریقہ کار کے علاوہ جرمن زبان سے ناواقفیت اور نوکریوں کے لیے درکار قابلیت نہ ہونے جیسی وجوہات بتائی گئی ہیں۔
علاوہ ازیں مذکورہ سروے میں تارکین وطن کو جرمنی میں کام کرنے کی اجازت دیے جانے کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ جائزے کے مطابق گزشتہ برس کے دوران ساڑھے اکیس ہزار سے زائد پناہ گزینوں کو جرمنی میں کام کرنے کی اجازت دی گئی۔
اس کے مقابلے میں 2014ء کے دوران محض آٹھ ہزار تارکین وطن کو ہی کام کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ ان مہاجرین کی اکثریت کا تعلق شام، افغانستان، عراق اور پاکستان سے ہے۔
کام کرنے کی اجازت ملنے کے باوجود تارکین وطن کے لیے ملازمت کا حصول دشوار ہوتا ہے۔ جرمن وفاقی دفتر روزگار کے مطابق مہاجرین کو کام اسی صورت میں ملتا ہے جب اس نوکری کے لیے کوئی جرمن یا یورپی یونین کا شہری دستیاب نہ ہو۔
وفاقی دفتر روزگار نے بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی آمد کے تناظر میں اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ رواں برس کے دوران بے روزگار تارکین وطن کی سالانہ اوسط تعداد ایک لاکھ تیس ہزار سے تجاوز کر جائے گی۔
دوسری جانب جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ کا بھی کہنا ہے کہ رواں برس کے دوران دو لاکھ 45 ہزار سے لے کر چار لاکھ 65 ہزار تارکین وطن ایسے ہوں گے جو جرمن حکومت سے بے روزگاری الاؤنس حاصل کرنے کے لیے درخواستیں دے سکتے ہیں۔
بے روزگار مہاجرین کے اعداد و شمار میں صرف ان غیر ملکیوں کو شامل کیا گیا ہے جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں منظور کی جا چکی ہیں۔