جرمنی: فوج میں غیر ملکی شہریوں کو بھی بھرتی کرنے پر غور
23 جنوری 2024ایک سینیئر جرمن قانون ساز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے کہ غیر ملکی شہریوں کو بھی جرمن فوج (بنڈیشور) میں کام کرنے کی اجازت دینے کی ایک تجویز پر غور ہو رہا ہے، جس کے تحت یورپی یونین سے باہر ممالک کے یورپی باشندوں کو بھی فوج میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
جرمنی میں گرین پارٹی لازمی فوجی سروس کی مجوزہ بحالی کے خلاف
فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کی رکن میری-ایگنیس اسٹراک-زیمرمین، جو جرمن پارلیمان کی دفاعی کمیٹی کی سربراہ ہیں، نے کہا کہ وہ جرمن فوج کو پورے براعظم کے امیدواروں کے لیے کھولنے کا تصور رکھتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ابتدائی طور پر ایسے امیدوار یورپی یونین کے ساتھ ہی، یورپی یونین کے سابق رکن برطانیہ جیسے ممالک اور غیر جانبدار ملک سوئٹزرلینڈ سے بھی آ سکتے ہیں۔ تاہم ان ممالک سے آگے کی بھی گنجائش ہے۔
جرمن فوج کو یورپ کے دفاع کے لیے 'ریڑھ کی ہڈی' ہونا چاہیے، جرمن وزیر دفاع
انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران کہا، ''میرے خیال میں یورپ میں بھی مزید غور کرنے کی ضرورت ہے، یعنی وہ لوگ جو یورپی ریاستوں میں تو رہ سکتے ہیں لیکن جن کا ابھی تک یورپی یونین سے تعلق نہیں ہے، تاہم وہ جو الحاق کی بات چیت کے دائرے میں ہو سکتے ہیں۔''
جرمن شہری کے قتل کے الزام میں دو امریکی فوجی گرفتار
وزیر دفاع بورس پسٹوریئس نے فوج میں اہلکاروں کی شدید کمی کا مقابلہ کرنے کے لیے غیر جرمنوں کو بھی بھرتی کرنے کے لیے خوش آمدید کہنے کا خیال پیش کیا ہے۔
روسی ہیکرز جرمن پاور گرڈ کے لیے خطرہ، جرمن فوج کے ماہر
پسٹوریئس کا تعلق سوشل ڈیموکریٹس سے ہے اور ان کے اس خیال کو ان کے دو اتحادی پارٹنرز، ایف ڈی پی اور اپوزیشن کرسچن ڈیموکریٹک یونین میں سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کی بھی حمایت بھی حاصل ہوئی ہے۔
تاہم، اس طرح کے منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے بارے میں بہت سے سوالات کے جوابات ابھی باقی ہیں۔
'جرات مندانہ، بڑا اور زیادہ یورپی'
اسٹریک زیمر مین نے اس حوالے سے قانون سازوں سے کہا کہ وہ ''تھوڑا جرات مندانہ نیز بڑا اور زیادہ یورپی سوچیں۔'' ان کا کہنا تھا کہ ''ہم پہلے ہی سے طویل مدتی وقت کے لیے ایک یورپی فوج رکھنے کے مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں۔''
انہوں نے کہا کہ جرمن فوج فرانس اور ہالینڈ میں اپنے ہم منصبوں کے ساتھ قریبی تعاون پہلے سے ہی کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا، ''اور یہی وجہ ہے کہ اگر آپ طویل مدت کے طور پر یورپی انداز میں سوچتے ہیں، تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یورپی فریم ورک کے اندر ایک فوجی کی قومیت کیا ہے۔''
اسٹریک زیمرمین نے کہا کہ یورپ سے آگے بھی جرمن فوج میں بھرتی ہونے کی صلاحیت کو ''نیٹو ممالک تک بڑھایا جا سکتا ہے'' لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ امریکہ اور کینیڈا جیسے رکن ممالک میں سیاسی پیش رفت کیا ہو گی۔
جرمن فوج (بنڈیشور) کے ایک ترجمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ نئی تجویز ''غیر ملکیوں سے خلا کو پر کرنے کے بارے میں نہیں ہے'' بلکہ مسلح افواج کے مستقبل کے بارے میں پسٹوریئس کی قیادت میں ایک کھلی بحث کا حصہ ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ''یورپی یونین کے شہریوں کو مسلح افواج میں خدمات انجام دینے کی اجازت دینا کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ جب سرکاری سطح پر ضرورت ہوتی ہے تو فوجیوں کے لیے واقعی کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔''
جرمنی میں رہنے والوں کے لیے ایک موقع
اسٹریک زیمرمین کے مطابق اگر دوسری قومیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں جرمن فوج میں داخل کرنے کی اجازت ملتی ہے، تو ایسے بہت سے لوگوں کے لیے بھی دروازے کھل جائیں گے، جو جرمنی میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے لیکن ان کے پاس جرمن شہریت نہیں ہے۔
انہوں نے اپنے شہر ڈسلڈورف کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہاں، ''10,000 سے زیادہ یونانی رہتے ہیں، دوسری یا تیسری نسل کے بہت سے نوجوان، جو گرچہ اتنے عرصے سے جرمنی میں ہیں، تاہم پھر بھی ان کے پاس یونانی پاسپورٹ ہے۔ شاید ملک سے لگاؤ کی وجہ سے، یا پھر کسی بھی وجہ سے، یہ فیصلہ کرنا ہمارا کام نہیں ہے۔''
ان کا مزید کہنا تھا کہ ''اگر کوئی کہتا ہے کہ 'میں اپنے آپ کو بنڈیسویر میں شامل ہونے کا تصور کر سکتا ہوں،' تو مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اس امکان پر غور کرنا چاہیے۔''
''اور اگر وہ فوج میں خدمات انجام دینے کے بعد جرمن پاسپورٹ چاہتے ہیں، تو ہمیں اس امکان پر غور کرنا چاہیے کہ دوسروں کے مقابلے میں، وہ اسے جلد حاصل کر سکیں۔''
ص ز/ ج ا (جیک کرلن، نینا ہاسے)