جرمنی: مہاجرین عدالت کا رخ کیوں کر رہے ہیں؟
26 دسمبر 2015سماجی عدالت کے ترجمان مارکوس ہوُوے نے ڈی پی اے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ دسمبر کے مہینے میں اب تک ڈیڑھ سو درخواستیں جمع کروائی گئی ہیں۔ رواں برس ستمبر میں درج ہونے والی درخواستوں کی کل تعداد محض چوبیس تھی۔
ہوُوے نے یہ بھی بتایا کہ پناہ کے متلاشی افراد نے اکتوبر اور دسمبر کے درمیان ساڑھے تین سو درخواستیں دیں جس کی وجہ سے عدالت کو کافی دباؤ کا سامنا ہے۔ ہوُوے کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ ’جرمن معاشرے میں تیزی سے رونما ہوتی ہوئی تبدیلی‘ کا عکاس ہے۔
پناہ گزینوں کی جانب سے عدالت میں مختلف وجوہات کی بنا پر مقدمات دائر کیے جا رہے ہیں۔ کچھ پناہ گزینوں کو یہ مسئلہ درپیش ہے کہ جرمنی آنے کے ہفتوں بعد بھی ان کی رجسٹریشن کا عمل شروع نہیں ہوا اور اس وجہ سے انہیں ماہانہ خرچہ بھی نہیں مل رہا۔
علاوہ ازیں ایسے مہاجرین بھی عدالت کا رخ کر رہے ہیں جنہیں پناہ کا حق دار تو تسلیم کر لیا گیا ہے لیکن انہیں ابھی تک پناہ گزینوں کے کیمپ میں رہائش نہیں مل سکی۔
عدالت کے ترجمان نے ان مسائل کی وجہ بتاتے ہوئے کہا، ’’جرمنی میں پناہ کی درخواست دینے والوں کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے صوبائی دفتر برائے صحت و سماجی امور (Lageso) پر کام کا کافی دباؤ ہے۔‘‘
مذکورہ وفاقی دفتر کے وسائل مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کے مسائل سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہیں جس کی وجہ سے بعض تارکین وطن کو انتظار کرنا پڑتا ہے۔ طویل اور دشوار گزار سفر کے بعد جرمنی پہنچنے والے پناہ گزین میں انتظار سے بچنے کے لیے معمولی مسائل پر بھی عدالت کا رخ کرنے کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔
برلن کی یہ سماجی عدالت جرمنی میں بے روزگاروں اور معذور افراد کو فراہم کی جانے والی مراعات کے مقدمات بھی سنتی ہے۔ تاہم مہاجرین کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمات کی فوری نوعیت کے باعث دیگر مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ہو رہی ہے۔
عدالت کے ترجمان کا کہنا تھا کہ رواں برس بے روزگاری مراعات کے بارے میں دائر درخواستوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ اس کے باوجود عدالت کو اس برس بیس ہزار سے زائد درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ اگلے برس اس قسم کے مقدمات میں اضافہ متوقع ہے۔
ہوُوے کے مطابق تسلیم شدہ مہاجرین بھی بے روزگاری مراعات لینے کے اہل ہیں۔ اگلے برس سے بے روزگار مہاجرین کی جانب سے بھی ان مراعات کے لیے مقدمات دائر کرائے جانے کا امکان ہے۔