جرمنی میں ترک باشندوں کی سیاسی پناہ کی درخواستوں میں اضافہ
18 نومبر 2016خبر رساں ادارے روئٹرز نے جرمن میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ رواں برس جنوری تا اکتوبر چار ہزار چار سو سینتیس ترک شہریوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اٹھارہ نومبر بروز جمعہ منظر عام پر آنے والے ان اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس یعنی سن دو ہزار پندرہ کے دوران مجموعی طور پر ایک ہزار سات سو سڑسٹھ ترک شہریوں نے جرمنی میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔
ترک اخبار ’جمہوریت‘ کے چیئرمین بھی گرفتار
مہاجرین کی ڈیل کے خاتمے کی ذمّہ دار ترک حکومت ہو گی: یورپی کمیشن
’جمہوریت‘ کے ایڈیٹر انچیف اپنے نو اراکین کے ساتھ باضابطہ طور پر گرفتار
جرمن میڈیا نے ملکی حکومت کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران ہر مہینے پناہ کے متلاشی تقریباﹰ ساڑھے تین سو ترک باشندوں کو جرمنی میں رجسٹر کیا گیا۔ تاہم جولائی کے بعد سے پناہ کی درخواستیں دینے والے ترک باشندوں کی اوسط ماہانہ تعداد چار سو پچاسی ہو چکی ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی جنوبی صوبے باویریا میں ہم خیال سیاسی جماعت کرسچن سوشل یونین کے سینئر رہنما اشٹیفان مائر نے ترکی کی سیاسی صورتحال کے تناظر میں خبردار کیا ہے کہ مستقبل میں اور بھی زیادہ ترک شہری جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرا سکتے ہیں۔
مائر نے کہا، ’’ہمیں اس بات کی توقع رکھنا چاہیے کہ آئندہ مہینوں میں جرمنی میں سیاسی پناہ کے متلاشی ترک شہریوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو گا۔‘‘
تاہم مائر نے جرمن وزارت خارجہ کے اس بیان پر تنقید بھی کی، جس میں کہا گیا ہے کہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ایسے سیاسی مخالفین جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دے سکتے ہیں، جنہیں سیاسی طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مائر نے زور دے کر کہا، ’’ترکی میں موجود حکومت کے تمام ناقدین کو جرمنی میں سیاسی پناہ دینے سے ہم ترکی کے مسائل کا حل تلاش نہیں کر سکتے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ صدر ایردوآن بھی یہی چاہتے ہیں کہ ترکی سے اپوزیشن کے تمام کارکن غائب ہو جائیں۔
یہ امر اہم ہے کہ حالیہ کچھ عرصے سے ترکی اور جرمنی کے تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں۔ بالخصوص ترکی میں جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد شروع ہونے والے حکومتی کریک ڈاؤن میں لوگوں کی بڑی تعداد میں گرفتاریاں اور انقرہ حکومت کا میڈیا کے ساتھ سلوک برلن کے لیے باعث تشویش ہے۔
ترکی یہ الزام بھی عائد کرتا ہے کہ جرمنی نے کرد جنگجوؤں کو ’محفوظ ٹھکانے‘ فراہم کر رکھے ہیں۔ برلن ایسے الزامات کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔