جرمنی میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ
2 مئی 2021
اس نئے مطالعے کو''مسلم لائف ان جرمنی 2020 ‘‘ کے عنوان سے، جرمنی کی اسلام کانفرنس کے ایماء پر شائع کیا گیا۔ جرمن اسلام کانفرنس 2006 ء میں وجود میں آنے والا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس نے جرمنی میں آباد مسلم اقلیت کے تمام گروپوں کے نمائندوں اور جرمن ریاست کے مابین مکالمت کے سلسلے کو باقاعدہ ادارے کی شکل دے دی ہے۔
جرمنی، مسلمانوں کو تابوت کے بغیر تدفین کی اجازت
فیڈرل آفس برائے ہجرت کے تحقیقاتی مرکز )بامف( کی طرف سے پیش کردہ اس تازہ ترین مطالعاتی رپوٹ سے پتا چلا ہے کہ جرمنی کی کُل آبادی میں اس وقت مسلم آبادی کا تناسب 6.4 سے 6.7 تک ہو چُکا ہے۔ اس مطالعے سے پہلے جرمنی کی مسلم آبادی کے بارے میں آخری بار ایک رپورٹ 2015 ء میں سامنے آئی تھی۔ اُس رپورٹ کے مقابلے میں 2020 ء کی بامف کی مطالعاتی رپوٹ کے مطابق جرمنی میں اسلام کی پیروکاروں میں 9 لاکھ افراد کا اضافہ ہوا ہے۔
جرمنی کی مسلم برادریاں
جرمنی میں اب بھی سب سے بڑی مسلم برادری ترکی سے ہجرت کرنے والے پس منظر کے حامل باشندوں کی ہے۔ ترک مسلمانوں کی یہ برادری 25 لاکھ یا ڈھائی ملین مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ تب بھی یہ جرمنی کی مسلم آبادی کا 45 فیصد بنتے ہیں جو اکثریت نہیں بنتی۔ ان کے علاوہ جرمنی میں عرب باشندوں کی تعداد قریب ڈیڑھ ملین یعنی مسلم آبادی کا 27 فیصد ہے۔ مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی شرح 19 فیصد جبکہ شمالی افریقی مسلمانوں کی کُل شرح 8 فیصد بنتی ہے۔
انتہاپسندی سے نمٹنے میں تربیت یافتہ علماء کا کلیدی کردار
جرمنی کی مسلم آبادی میں عمر کا تناسب
جرمنی میں آباد مسلم برادری کا اکیس فیصد یا پانچواں حصہ 15 سال سے کم عمر بچے یا نو عمر مسلمان ہیں۔ 22 فیصد کی عمریں 15 سے 24 سال کے درمیان ہیں۔ جرمنی کی مسلم آبادی کا محض 5 فیصد 64 سال سے زیادہ عمر کے باشندے ہیں جبکہ یورپی ملک جرمنی میں آباد تمام مسلمانوں میں سے تقریباً نصف کے پاس جرمن شہریت ہے۔
جرمنی: دہشت گردانہ حملوں کے خلاف مسلمانوں کی پرامن ریلی
زیادہ مذہبی کون ؟
فیڈرل آفس برائے ہجرت کے تحقیقاتی مرکز )بامف( کی طرف سے شائع کردہ اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق جرمنی میں سکونت اختیار کیے ہوئے مسلم ممالک کے پس منظر والے افراد اُن لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مذہبی ہیں جو ہجرت کا پس منظر نہیں رکھتے۔ اس رپورٹ سے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ نا صرف جرمنی میں آباد مسلم برادری بلکہ دیگر عقیدوں کے ماننے والے ایسے افراد جو کسی نا کسی ملک کو ترک کر کے جرمنی میں آکر آباد ہوئے ہیں کا 85 فیصد کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے عقیدے پر پختگی کے ساتھ قائم ہیں۔ تاہم روزمرہ زندگی میں مذہبی قوائد و ضوابط پر عملی طور پر قائم رہنے کے ضمن میں یہ برادریاں ایک دوسرے سے کافی مختلف نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر 70 فیصد مسلمان کھانے پینے کے مذہبی قوائد پر عمل پیرا ہیں جبکہ صرف 39 فیصد فیصد روزانہ نماز ادا کرتے ہیں، ان 70 فیصد مسلمانوں میں شامل لڑکیوں اور خواتین کی اکثریت ہیڈ اسکارف نہیں پہنتیں۔
یورپ کے سب سے بڑے مسلم قبرستانوں میں سے ایک آئندہ ہالینڈ میں
جرمن زبان
کسی بھی معاشرے مپں باہر سے آکر بسنے والی برادریوں کے لیے زبان ان کے انضمام میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ جرمنی میں آباد مسلمانوں کا 79 فیصد جرمن زبان کی بہت اچھی یا اچھی فہم و فراست رکھتے ہیں۔ بامف کی طرف سے کروائی جانے والی اس تحقیق میں معاشرتی انضمام کے مختلف پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ بامف کے صدر ہنس ایکہارڈ زومر کے مطابق جرمنی میں آباد مسلمان جرمنی سے اپنا مضبوط رشتہ محسوس کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا،'' جرمنی میں مسلمانوں کی اکثریت کسی نا کسی جرمن انجمن کی ممبر ہے۔ یہ روزانہ جرمن نژاد باشندوں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ ہر تین مسلمان باشندوں میں سے دو کا حلقہ احباب میں اکثر جرمن نژاد باشندے شامل ہوتے ہیں۔‘‘
ک م/ ع ح/ کے این اے