جرمن اسلحے کی برآمد میں ریکارڈ اضافہ
27 دسمبر 2019جرمن وزارت اقتصادیات کے مطابق برلن حکومت کو ہتھیاروں کی فروخت سے 8.8 بلین (7.95 یورو) امریکی ڈالر حاصل ہوئے ہیں۔ جرمن وزارت اقتصادیات نے یہ اعداد و شمار پارلیمنٹ میں بائیں بازو کی سیاسی جماعت دی لنکے کے ایک رکن کے سوال پر بتائے ہیں۔ ایسا ہی ایک سوال ماحول دوست سیاسی جماعت گرین پارٹی کے ایک رکن نے بھی کر رکھا تھا۔
ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہتھیاروں کی یہ فروخت برلن حکومت کی باضابطہ منظوری سے کی گئی تھی۔ اس اسلحے میں ہتھیاروں کے علاوہ فوجی گاڑیاں اور جنگی بحری جہاز بھی شامل ہیں۔ تین سال قبل جرمن اسلحے کی فروخت میں اضافہ ریکارڈ کیا تھا، سن 2019 میں یہ فروخت اُس ریکارڈ کو بھی پیچھے چھوڑ گئی ہے۔
پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار میں بتایا گیا کہ جرمن ہتھیاروں اور فوجی ساز و سامان کی فروخت سن 2019 کے وسط ہی میں گزشتہ برس یعنی سن 2018 سے بڑھ گئی تھی۔ جون سن 2019 تک جرمن اسلحے کی فروخت سے 5.3 بلین ڈالر حکومتی خزانے میں شامل ہوئے تھے۔
جرمن وزیر اقتصادیات پیٹر آلٹمائر کا کہنا ہے کہ جرمن اسلحے میں فروخت میں اضافے کی وجہ مختلف علاقوں میں پائی جانے والی فوجی رسہ کشی اور عسکری تنازعات ہیں۔ سن 2019 میں سب سے زیادہ جرمن اسلحہ یورپی ملک ہنگری نے خریدا۔ ہنگری نے 1.77 بلین ڈالر کے جرمن ہتھیار حاصل کیے۔
ہنگری کے دائیں بازو کے قوم پرست وزیر اعظم وکٹور اوربان اس وقت اپنے ملک کی فوج میں انتہائی بڑی تبدیلیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اُن کی حکومت نے اسلحے کی مجموعی درآمد میں سے ایک چوتھائی ہتھیار اور فوجی سامان جرمنی سے خریدنے کی منظوری دے رکھی ہے۔
یورپی امن دوست حلقوں نے جرمنی کی جانب سے یمنی خانہ جنگی کے بعض فریقوں کو ہتھیاروں کی بدستور فراہمی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ برلن حکومت یمنی جنگ میں شریک ممالک کو ہتھیار فراہم نہ کرنے پر سن 2018 میں رضامند ہو گئی تھی۔ برلن حکومت نے سعودی عرب کو بھی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے تناظر میں اسلحہ بیچنے پر فی الحال پابندی عائد کر رکھی ہے۔
مائیکل مارٹن (ع ح ⁄ ع ب)