جرمن اسکولوں میں حجاب پر ممکنہ پابندی: مکالمت اہم ہے، ماہرین
14 اپریل 2018ایسے اندازےلگائے گئے ہیں کہ کئی جرمن اسکولوں میں حجاب لینے والی طالبات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب جرمنی کی وفاقی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فالیا میں ریاستی حکومت ایسی منصوبہ بندی کر رہی ہے کہ اسکولوں میں چودہ برس سے کم عمر کی لڑکیوں پر حجاب لینے کی پابندی عائد کر دی جائے۔ اس مناسبت سے سماجی ماہرین کا خیال ہے کہ اس پابندی کے نفاذ سے مسلم آبادی کے حلقوں میں اضطراب اور عدم اطمینان پیدا ہو جائے گا۔ ان حلقوں کے مطابق پابندی کے نفاذ سے قبل لڑکیوں کے والدین اور دوسرے سماجی گروپوں کے ساتھ مشاورت اور مکالمت بہت ضروری ہے۔
اساتذہ کی طرف سے بچیوں کے حجاب پر پابندی کی حمایت
آسٹریا، بچیوں کے ہیڈ اسکارف پر پابندی کا حکومتی منصوبہ
’مسلم اشتہار‘ کیا جرمن معاشرہ اسلام پسندی کی طرف جا رہا ہے؟
حجاب کی خلاف ورزی، دو درجن سے زائد ایرانی خواتین گرفتار
نارتھ رائن ویسٹ فالیا کے شہر ایسن کے ٹیچر ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں قانون پڑھانے والے ایک استاد تھوماس بُیوم کا کہنا ہے کہ یہ درست ہے کہ اسکارف لینے والی لڑکیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ بُیوم کے مطابق اسکولوں میں حجاب لینے پر پابندی بظاہر انتہائی مشکل یا کسی حد تک ناممکن دکھائی دیتی ہے۔
تھوماس بُیوم کا یہ بھی کہنا ہے کہ اُن کا اسکول حجاب کی پابندی کی خلاف ورزی کرنے کے خلاف بعض تادیبی اقدامات اٹھا سکتا ہے اور اس میں اُس طالبہ کو گھر بیجنے کے ساتھ ساتھ اُس کے والدین کو بھی طلب کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے ایک انڈراسٹینڈنگ کا ہونا بہت ضروری ہے بُیوا کے مطابق انڈراسٹینڈنگ کے غیرموجودگی میں تادیبی اقدامات بےاثر ہو سکتے ہیں۔
بون شہر کی ایک خاتون ٹیچر یاسمین اوکتانسوئی کا کہنا ہے کہ کلاس میں اُن کے طلبا نے حجاب نہ لینے پر سوال کیا تھا اور انہوں نے واضح کیا کہ وہ مسلمان ہونے کے باوجود حجاب لینے کو ضروری خیال نہیں کرتیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حجاب بنیادی طور پر مذہب اور کلچر کے تعلق سے جڑا ہے۔ یاسمین اوکتانسوئی نے خیال ظاہر کیا کہ حجاب کی ضرورت گرمی سے بچاؤ یا صحرا میں سفر کے دوران ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کل حجاب کا فیشن ضرور ہے لیکن بڑی ہوتی لڑکیوں میں حجاب لینا اصل میں شناخت کا عمل بھی ہے۔
اندریا گروناؤ (عابد حسین)