جرمن صحافیوں پر ایران کے خلاف جاسوسی کا الزام
16 نومبر 2010ایران کے شمال مغربی صوبے شمالی آذربائیجان کے محکمہ انصاف کا کہنا ہے، ’یہ دونوں جرمن شہری سیاحوں کے طور پر ملک میں داخل ہوئے۔ تاہم ایران اور تبریز میں ان سیاحوں کے کام اور تبریز میں ان کی رپورٹنگ سےپتہ چلتا ہے کہ وہ جاسوسی کے ارادے سے آئے۔‘
شمالی آذر بائیجان صوبے کے محکمہ انصاف کے سربراہ ملک اجدار شریفی نے کہا، ’دراصل یہ دونوں یہاں جاسوسی کے لیے آئے اور خدا کا شکر ہے کہ ان کی نشاندہی ہو گئی اور انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ جب انہیں گرفتار کیا گیا تو ان سے جاسوسی میں ملوث ہونے کے ثبوت بھی ملے۔ وہ اسلامی جمہوریہ کو رسوا کرنے کی مہم شروع کرنے والے تھے۔‘
اِدھر برلن حکام کا کہنا ہے کہ ان شہریوں کی رہائی کے لئے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ تہران حکام کے اس اعلان پر مغرب کے ساتھ اس کے تعلقات میں مزید کشیدگی کا خدشہ ہے۔ یہ صورت حال ایسے وقت سامنے آئی ہے، جب تہران حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ایران اور جرمنی سمیت سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کے درمیان پانچ دسمبر کے جوہری مذاکرات کے لئے مقام کا تعین ابھی باقی ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لئے مشاورت جاری ہے اور مذاکرات کی تاریخ پر مفاہمت ہو چکی ہے۔
خیال رہے کہ ان جرمن صحافیوں کی شناخت ابھی تک ظاہر نہیں کی گئی۔ ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن پر پیر کو ان کے اعتراف پر مبنی دھندلی ویڈیو نشر کی گئی تھی۔ اس ویڈیو کی فارسی کمنٹری کے مطابق وہ دس اکتوبر کو ایران میں داخل ہوئے۔ اس ویڈیو کے مطابق انہوں نے جرمنی میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والی انسانی حقوق کی ایرانی کارکن مینا احدی پر انگلی اٹھائی ہے۔
تاہم اِدھر جرمنی میں خبررساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں مینا احدی نے کہا، ’میں نے انہیں ایران نہیں بھیجا۔ میں نے انہیں دورہ ایران کے خطرات سے آگاہ کیا تھا اور وہاں لوگوں سے رابطہ کرنے میں مدد فراہم کی تھی۔’
مینا احدی کا کہنا ہے، ’میرا نہیں خیال کہ ایران میں ان صحافیوں پر کسی طرح کا جسمانی تشدد کیا گیا ہے۔ تاہم وہ نفسیاتی دباؤ کے شکار ضرور ہیں۔‘
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: افسراعوان