جرمن صدر نے خاموشی توڑ دی
23 دسمبر 2011کرسٹیان وولف پر ابھی حال ہی میں یہ الزامات عائد کیے گئے تھے کہ جب 2007ء میں وہ صوبہ لوئر سیکسنی کے وزیر اعلیٰ تھے تو پارلیمانی سماعتوں کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ ان کے اپنے دوستوں کے ساتھ کوئی تجارتی روابط نہیں ہیں۔ حالانکہ انہوں نے ایک گھر خریدنے کے لیے اپنے ایک دوست گیرکنز کی اہلیہ سے خصوصی شرائط پر قرض لیا تھا۔
گزشتہ دس دنوں سے جاری اس اسکینڈل کے بعد جرمن صدر کرسٹیان وولف نے جمعے کو اعتراف کیا کہ جس طرح انہوں نے اس اسکینڈل پر ردعمل ظاہر کیا وہ درست نہیں تھا۔ برلن میں واقع اپنے دفتر میں منعقد ہوئی ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جرمن صدر نے کہا: ’یہ کوئی درست راستہ نہیں تھا اور میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔‘
اس اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد عمومی طور پر خیال کیا جا رہا ہےکہ اپنے دوستوں سے مراعات حاصل کرنے والے کرسٹیان وولف نے شاید انہیں خصوصی رعایتیں بھی دی ہوں۔ تاہم جرمن صدر نے ایسی تمام تر قیاس آرائیوں کو مسترد کر دیا ہے۔
کرسٹیان وولف نے کہا: ’میں نے بطور عوامی نمائندے کے کسی بھی وقت کسی کو ناجائز فوائد نہیں پہنچائے ہیں۔‘ باون سالہ وولف نے وضاحت کی کہ اپنے دفتری کاموں میں ان کے ساتھیوں یا دوستوں میں سے کسی نے بھی ان پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ خود پر عائد کیے جانے والے تمام الزامات پر احتسابی عمل کے لیے تیار ہیں۔
گزشتہ برس جرمنی کے صدر کا عہدہ سنبھالنے والے کرسٹیان وولف نے مزید کہا: ’میں بطور صدر اپنی اہلیت کے مطابق محنت و جانفشانی سے کام کرتا رہوں گا۔‘ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ان پر اپنا اعتماد برقرار رکھیں۔
جرمن صدر کے بارے میں ان اسکینڈلز کے منظر عام پر آنے کے بعد ملک میں اپوزیشن کے دھڑے منقسم دکھائی دے رہے ہیں۔ جرمن پارلیمان میں مرکزی اپوزیشن جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے جنرل سیکرٹری Andrea Nahles نے صدر کے اعتزاف پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی طرف سے اس بیان کا کافی دیر سے انتظار تھا جبکہ گرین پارٹی سے وابستہ Renate Kuenast کہتی ہیں کہ انہیں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ابھی بھی کچھ باتیں منظر عام پر نہیں آئی ہیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: ندیم گِل