جرمن صوبے باویریا میں نقاب پر پابندی
22 فروری 2017باویریا کی حکومت کی جانب سے منگل کو رات دیر گئے اعلان کیا گیا کہ صوبے کے مخصوص عوامی مقامات پر چہرے کے مکمل نقاب پر پابندی پر اتفاق ہو گیا ہے۔ اس تناظر میں صوبائی وزیر داخلہ یوآخم ہیرمان نے کابینہ کے اجلاس کے بعد کہا، ’’مکمل نقاب کیے ہوئے یا برقعہ پہنے ہوئے خواتین عوامی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں اور لوگوں کے ساتھ میل جول میں بھی رکاوٹ ہیں۔‘‘ ہیرمان نے مزید کہا کہ صرف گفتگو ہی کسی کے ساتھ میل جول کا واحد ذریعہ نہیں ہوتی بلکہ دیکھنا، اشارہ اور حرکات کی مدد سے بھی بات چیت کی جاتی ہے۔‘‘
اس مسودہ قانون کے مطابق صوبے باویریا کے شہری اداروں، یونیورسٹیوں، اسکولوں، کنڈر گارٹنز اور عوامی سلامتی کے شعبوں اور انتخابات کے دوران خواتین اپنے چہروں کو مکمل طور پر نہیں چھپا سکیں گی۔
صوبے باویریا میں دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی قدامت پسند جماعت کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) کی حکومت ہے، جو چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کی ہم خیال تصور کی جاتی ہے۔ اس صوبے کی پارلیمان میں سی ایس یو کو قطعی اکثریت حاصل ہے اور اسی وجہ سے پارلیمان بھی اس مجوزہ قانون کی منظوری بھی متوقع ہے۔ توقع ہے کہ اس سال موسم گرما کی چھٹیوں سے قبل ہی اس قانون پر عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔
یہ قانون سازی ایک ایسے وقت پر کی جا رہی ہے، جب جرمنی میں عام انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں۔ اس دوران ایسے خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ مہاجرین مخالف جماعت آلٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ (اے ایف ڈی) میرکل کی پارٹی کے کچھ ووٹ حاصل کر سکتی ہے۔ چانسلر میرکل گزشتہ برس دسمبر میں برقعے اور پورے چہرے کے نقاب پر پابندی کی حمایت کر چکی ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ قانون جہاں کہیں بھی اجازت دے، اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔
کئی حلقوں نے اس قانون سازی کی مخالفت کی ہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک جانب تو نقاب پر پابندی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی ہے بلکہ ساتھ ہی ایک غیر اہم معاملے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ جرمن حکومت کے پاس پورے چہرے کا نقاب استعمال کرنے والی مسلم خواتین کی اصل تعداد کے حوالے سے کوئی اعداد و شمار موجود ہی نہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اندازہ ہے کہ جرمنی میں تین سو کے قریب خواتین باقاعدگی سے پورا نقاب کرتی ہیں۔