جرمن مساجد میں امام اپنے خطبوں میں کیا کہتے ہیں؟ نئی بحث
29 اپریل 2016ترکی میں پارلیمان کے اسپیکر اسماعیل قہرمان کے گزشتہ ویک اَینڈ کے اس بیان کے بعد کہ ترکی ایک اسلامی ملک ہے، جس کا ایک ’مذہبی آئین‘ ہونا چاہیے، ترکی میں زبردست بحث مباحثہ شروع ہو گیا تھا۔ بالآخر دو روز بعد ترک صدر رجب طیب ایردوآن کا یہ بیان سامنے آ گیا کہ ترکی تمام مذاہب سے مساوی فاصلہ رکھتا ہے اور ’یہی سیکولرازم ہے‘۔ یوں ایردوآن نے قہرمان کے موقف کو سختی سے رد کر دیا۔
ادھر جرمنی میں بھی یہ نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ جرمن مساجد میں خدمات انجام دینے والے تقریباً 970 امام کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس بحث کا آغاز ایک جرمن اخبار کی اس رپورٹ سے ہوا تھا، جس میں یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ ترک ریاست اور وہاں کی حکمران پارٹی اے کے پی کس حد تک ان اماموں کی وساطت سے جرمنی میں سیاسی اثر و رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ترک اسلامی یونین Ditib ویسے تو ایک مذہبی تنظیم ہے لیکن جرمن گرین پارٹی کے ترک نژاد سیاستدان چَیم اوئزدیمیر کے مطابق یہ دراصل ایک سیاسی تنظیم ہے، جس کے ڈانڈے ترک ریاستی ڈھانچے سے جا ملتے ہیں اور یہ کہ ترکی کو بالآخر اپنے مسلمان شہریوں کو آزاد کر دینا چاہیے۔ ایسے میں سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیا ترک ریاست جرمن مساجد کا ناجائز استعمال کر رہی ہے؟
جرمنی کے اندر ایسے اماموں کی تربیت کا پروگرام ابھی حال ہی میں شروع ہوا ہے، جو جرمن زبان سے بھی اچھی طرح سے واقفیت رکھتے ہوں چنانچہ ابھی تک تو جرمن مساجد کے پاس بیرون ملک سے امام بلوانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ پھر جرمن آئین کی شق نمبر 137 بھی مذہبی تنظیموں کو زیادہ سے زیادہ انتظامی خود مختاری کی ضمانت دیتی ہے۔ اس شق کو سیاسی وجوہات کی بناء پر اسلام اور اُس کے عبادت خانوں پر لاگو نہ کرنا آئینی امتیاز برتنے کے مترادف ہو گا۔
جرمنی کی میونسٹر یونیورسٹی میں اسلامیات کے سینٹر کے انچارج مھند خورشید کہتے ہیں کہ اُن کا واسطہ اب تک جتنے اماموں سے پڑا ہے، اُنہیں کبھی بھی ان کے بیانات آئین سے متصادم نہیں لگے۔ ہاں یہ بات ضرور تشویشناک ہے کہ زیادہ تر امام نہ تو جرمن زبان سے واقف ہیں اور نہ ہی جرمن طرزِ معاشرت سے۔ مبصرین کے خیال میں مذہبی تنظیموں اور مسلمان علماء کو جدید تقاضوں سے مطابقت پیدا کرنی چاہیے اور امید ہے کہ جرمنی میں آباد مسلمان بھی خود کو نئے حالات سے ہم آہنگ کرتے چلے جائیں گے۔