جرمن ہتھیار آئی ایس کے ہاتھ بھی لگ سکتے ہیں، داگما اینگل
21 اگست 2014ڈوئچے ویلے کی تبصرہ نگار داگما اینگل کے خیال میں کردوں کو اسلحہ فراہم کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ ابتدائی طور پر ابھی تک یہ ایک فیصلہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کسی بھی منصوبے پر عمل کرنے سے قبل فیصلے کیے جاتے ہیں اور ان کے ذریعے مطلوبہ حل تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کے بقول برلن حکومت کا یہ فیصلہ خطرے سے خالی نہیں ہے۔ تجربہ سکھاتا ہے کہ جنگ یا کسی مسلح تنازعے کے دوران مہیا کیے جانے والے ہتھیار اکثر غلط ہاتھوں میں ہی جاتے ہیں۔ اس بارے میں وہ مثال دیتے ہوئی کہتی ہیں کہ مغربی ممالک نے سابقہ سوویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین کو مسلح کیا تھا اور بعد میں انہی ہتھیاروں کے ذریعے دیگر افراد کی جانیں بھی لی گئیں اور تباہی بھی پھیلی۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ ’ آئی ایس‘ کے پاس زیادہ تر وہ اسلحہ ہے، جو عراقی فوج سے چرایا یا چھینا گیا ہے۔ ان میں خاص قسم کے امریکی ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں بھی شامل ہیں اور جرمنی کی جانب سے ٹینک شکن میزائل کرد ملیشیا کو فراہم کرنے کا بھی یہی نتیجہ نکل سکتا ہے۔ ڈوئچے ویلے کی تبصرہ نگار کے بقول کرد ملیشیا یہی اسلحہ خود مختاری کی اپنی تحریک میں بھی استعمال کر سکتی ہے۔ جرمنی ایک متحد عراق کا حامی ہے اور جرمن وزیر خارجہ اپنے حالیہ دورہ عراق میں بھی اس حوالے سے ذکر کر چکے ہیں۔
برطانیہ، فرانس اور اٹلی شمالی عراق میں کرد ملیشیا کو ہتھیار فراہم کرنے کا کہہ چکے ہیں۔ اس موقع پر ڈوئچے ویلے کی تبصرہ نگار سوال کرتی ہیں کہ کیا اس سے کوئی فرق پڑے گا کہ ٹینک شکن یہ میزائل جرمن فوج کے ہوں یا رائل آرمی کے؟ اُن کے خیال میں کیا جرمنی یہ کہہ سکتا ہے کہ آپ لوگ اسلحہ فراہم کرنے کا گھناؤنا کاروبار کریں اور میں انسانی امداد کے عظیم کام پر توجہ مرکوز رکھتا ہوں؟۔ لیکن ایسا ہو نہیں سکتا۔ کیونکہ یورپی یونین کا اتحاد اور اتفاق رائے ہی اسے ایک موثر طاقت بناتا ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی برسلز میں یورپی وزرائے خارجہ نے ہتھیاروں کی ترسیل کے حوالے سے فیصلہ کیا تھا۔
ڈوئچے ویلے کی تبصرہ نگار داگما اینگل کہتی ہیں کہ شمالی عراق کی صورتحال انتہائی نازک ہے اور آئی ایس کے شدت پسندوں سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ یہ گروہ عراق اور شام کے علاوہ مشرق وسطٰیٰ کے دیگر علاقوں میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششوں میں ہے۔ آخر میں داگما اینگل ایک مرتبہ لکھتی ہیں کہ ہتھیاروں کی ترسیل کوئی حل نہیں بلکہ ایک فیصلہ ہے۔ اور ان حالات میں شہریوں کی زندگی بچانے کے لیے اس پر عمل درآمد بھی کیا جانا چاہیے۔