طالبان سے امن مذاکرات بحال کرنے پر اتفاق
27 دسمبر 2015جنرل راحیل شریف اتوار 27 دسمبر کی صبح دیگر اعلٰی فوجی افسران کے ہمراہ کابل پہنچے تو ان کے افغان ہم منصب جنرل قدم شاہ شہیم نے ان کا استقبال کیا۔ پاکستانی آرمی چیف نے شام تک ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا، جس دوران وہ میزبان صدر محمد اشرف غنی، چیف ایگزیکیٹو عبداللہ عبداللہ اور افغانستان میں متعین امریکی و نیٹو افواج کے اعلٰی کمانڈر جنرل جان کیمپبل سے ملے۔
افغان حکومتی ذرائع کے مطابق ان ملاقاتوں میں امن و امان، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور سب سے بڑھ کر طالبان کے ان گروہوں سے ساتھ مذاکرات کی بحالی پر بات ہوئی جو اس جانب مائل ہیں۔
گرچہ جنرل راحیل پہلے بھی متعدد بار کابل کا دورہ کرچکے ہیں مگر اس بار ان کے دورے کو خاص طور پر طالبان اور افغان حکومت کے مابین امن مذاکرات بحال کروانے میں پاکستان کے اثر و رسوخ اور عملی اقدامات کے پس منظر میں دیکھا گیا۔ رواں ماہ ہی اسلام آباد میں منعقدہ Heart of Asia Conference میں پاکستان نے چین اور امریکا کی ثالثی میں افغانستان کو اس ضمن میں اپنی حمایت کا یقین دلایا تھا۔
میڈیا کو جنرل شریف کی کابل میں مصروفیات کی بابت بہت زیادہ معلومات میسر نہیں ہوئیں اور محض رسمی بیانات سے ہی احوال کا پتہ چلتا ہے۔ افغان دارالحکومت میں ویسے ہی سلامتی کا خاصا سخت انتظام رہتا ہے، پاکستانی فوجی وفد کے حوالے سے مزید انتظامات کیے گئے تھے۔
صدر غنی کے دفتر سے جاری اعلامیے میں واضح کیا گیا ہے کہ دونوں اطراف نے یہ عزم دہرایا کہ دہشت گردوں کو ایک دوسرے کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اس حوالے سے اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احاطہ کرکے قریبی رابطہ رکھا جائے گا۔ اعلامیے میں یہ ذکر بھی موجود ہے کہ وہ گروہ جو دہشت گردی کا سلسلہ جاری رکھنے پر بضد ہیں ان کے ساتہ مشترکہ لائحہ عمل کے تحت نمٹا جائے گا۔
پاکستانی فوج کے ترجمان جنرل عاصم باجوہ نے بھی اپنے ٹوئیٹر پیغامات میں زیادہ تر انہی نکات کی جانب اشارہ کیا ہے۔ ان کے بقول دونوں ممالک کے مابین ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی سطح پر مستقل رابطوں کے قیام پر اتفاق ہوا ہے تاکہ اعتماد سازی کا کام آگے بڑھایا جاسکے۔
ایک اور اہم پیشرفت یہ سامنے آئی ہے کہ اگلے برس جنوری میں چارفریقی، یعنی امریکا، افغانستان، پاکستان اور چین کا ایک اجلاس منعقد کرنے پر اتفاق ہوا ہے، جس میں طالبان کے ساتہ امن مذاکرات کی بحالی کے پہلوؤں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا جائے گا اور ایک فریم ورک تشکیل دیا جائے گا۔
افغانستان اور پاکستان کے سیاسی تعلقات ایک عرصے سے سرد مہری سے عبارت چلے آرہے ہیں۔ کابل حکومت ایک دھائی سے بھی زیادہ عرصے سے اسلام آباد پر افغانستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے کا الزام لگاتی چلی آرہی ہے۔ پاکستان ان الزامات کو رد کرتے ہوئے افغان حکومت کی کمزوری اور بعض عناصر کی جانب سے پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کا مدعا اٹھاتا ہے۔
سینئر افغان صحافی عاشق اللہ یعقوب مانتے ہیں کہ جنگ زدہ افغانستان کی حکومت کو داخلی طور پر کئی مسائل اور کھینچا تانیوں کا سامنا ہے مگر ان کے بقول کابل حکومت اتنی توانا نہیں کہ وہ منظم انداز میں ایک پالیسی کے تحت پاکستان مخالف عناصر کو استعمال کرسکے: ’’مُلا فضل اللہ یا دیگر پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کی یہاں موجودگی کا جو دعویٰ کیا جاتا ہے وہ مجھے تو پراپیگنڈہ مہم کا حصہ لگتا ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے مابین عسکریت پسندوں کی آمدورفت کو کنٹرول کرنا اتنا آسان نہیں۔‘‘
بعض مبصرين البتہ سابق افغان انٹيليجنس چيف رحمت اللہ نبيل کے استعفے کے پيچھے پاکستان کی درخواست کو کارفرما سمجھتے ہیں۔
سابق صدر حامد کرزئی کی جگہ سنبھالنے والے افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کے حوالے سے خاصی مثبت پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ اگست میں کابل میں ہونے والے متعدد دہشت گردانہ حملوں کے بعد صدر غنی نے پاکستان پر دھوکہ دینے اور دہشت گردوں کی پشت پناہی جاری رکھنے کا الزام لگایا تاہم قیاس آرائیوں کے برعکس ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت اور پھر جنرل راحیل سے ہوئی حالیہ ملاقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے دل میں دونوں ممالک کے مابین اچھے تعلقات کی بحالی کے امید قائم ہے۔