جنسی استحصال کے شکار بچے کہاں جائیں؟
10 اکتوبر 2021بچوں کے تحفظ، خاص کر بچوں کے جنسی استحصال کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ساحل نے اپنی جنوری تا جون 2021ء کی رپورٹ جاری کی ہے۔ اس کے مطابق پاکستان میں ان چھ ماہ میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے 1084واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس اعداد و شمار کے حساب سے روزانہ تقریباً 10 بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ایک حقیقی کہانی
اسلام آباد کا رہائشی 12 سالہ حمزہ (فرضی نام ) اپنے پڑوس میں رہنے والے بچوں کے ہا تھوں کئی بارجنسی زیادتی کا شکار ہوا۔ حمزہ کی والدہ ڈاکٹر جبکہ والد سرکاری ادارے میں ملازم ہیں۔ والدہ صبح اور والد شام کو اپنے کام پر جاتے تھے اور اس بیچ شام میں ایک گھنٹہ حمزہ گھر پر اکیلا ہوتا تھا۔ اس دوران وہ پڑوس کے فلیٹ میں چلاجاتا تھا۔ پڑوس کے لڑکے حمزہ سے عمر میں بڑے تھے اور وہ وہاں مختلف فحش ویڈیوز دیکھتے اور حمزہ کا جنسی استحصال بھی کرتے۔ یہ سلسلہ 5 سے 6 ماہ چلتا رہا۔
حمزہ کو اس سلوک کی وجہ سے صدمے کا شکار ہو گیا اور خوف سے یہ بات اپنے والدین سے بھی چھپا کر رکھی کہ کہیں بتائے بغیر پڑوس میں جانے پر وہ ناراض نہ ہو جائیں۔
اس تمام معاملے کے دوران حمزہ نے کھانا پینا چھوڑ دیا، تنہائی کا شکار رہنے لگا ساتھ ہی اس کی تعلیمی کارکردگی بھی متاثر ہونے لگی۔ حمزہ کے والدین نے اپنے بچے کے اس رویے پر پریشان ہو کر اسے ماہر نفسیات ڈاکٹر عظمٰی مسرور کے پاس لے گئے۔
ایئر یونیورسٹی کے ہیومنٹیز، ایجوکیشن اور سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ ڈاکٹر عظمیٰ مسرور کہتی ہیں کہ جب اس بچے کو میرے پاس لایا گیا تو یہ کافی سہما ہوا تھا۔ انہوں نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا،''تھیراپی کے دوران اس نے اپنے ساتھ ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات بتائے۔ ڈھائی ماہ کی تھیراپی کے بعد اب حمزہ نارمل زندگی کی طرف لوٹا ہے۔‘‘
ڈاکٹر عظمٰی کہتی ہیں کہ ان کے پاس آنے والے مریضوں میں سے 70 فیصد مریض بچپن میں ایک یا ایک سے زائد بار جنسی زیادتی کا شکار بن چکے ہوتے ہیں،''جوں جوں یہ بچے بڑے ہوتے ہیں یہ یادیں ان کے ساتھ رہتی ہیں اور انہیں صدمہ پہنچاتی ہیں۔ بعض دفعہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بظاہر انہیں کوئی بیماری نہیں ہوتی جس کو ہم نفسیاتی عارضہ کہیں لیکن وہ لوگ بے چینی اور بے سکونی کا شکار رہتے ہیں۔‘‘
ساحل کی جانب سے جاری کردہ ششماہی اعداد و شمار کے مطابق 1045واقعات میں بچوں کے قریبی رشتے دار جبکہ اور 430 واقعات میں انجان لوگ ملوث پائے گئے۔
ڈاکٹر عظمٰی کے بقول بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے بہت سے واقعات رپورٹ بھی نہیں ہوتے، ''اس میں والدین کا کردار سب سے اہم ہے۔ ماحول ایسا رکھیں کہ بچے کھل کر اپنے مسائل بتا سکیں۔ والدین بچوں کی بات پر بھی توجہ دیں۔ بعض اوقات بچہ بتانا چاہ رہا ہوتا ہے لیکن والدین اس کی بات کو اہمیت نہیں دیتے۔‘‘
تھیراپی کے ذریعے علاج
ڈاکٹر عظمیٰ امریکن سرٹیفائیڈ ٹرینر اور پاکستان ایسوسی ایشن آف کلینیکل سائیکالوجسٹ کی صدر بھی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس صدمے یا ذہنی مسئلے سے نکالنے کے لیے مختلف قسم کی تھیراپیز سے مدد لی جاتی ہے جیسا کہ سائیکلوجیکل انٹروینشن اور ٹاک تھیراپی ہے۔
وہ مزید بتاتی ہیں کہ اس طرح کی تھیراپی میں صدمہ پہنچانے کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔،'' دماغ میں تکلیف کے جو پہلو ہیں، انہیں کم کیا جاتا ہے۔ مریض کو یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس وقت جو بھی کچھ ہوا اس میں اس کا ہاتھ نہیں تھا۔ اس بات کو قبول کروایا جاتا ہے تا کہ وہ خود کو قصوروار نہ سمجھے۔ اس کا کیتھارسس ہو جائے۔ اس صدمے سے نکالنے کے بعد اس فرد کو زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے مثبت تجاویز بھی دی جانا ضروری ہیں۔‘‘
محفوظ بچپن کی مرتب کر دہ اقدامات
چیئرپرسن قومی کمیشن برائے حقوق اطفال افشاں تحسین نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی بہت ہی پیچیدہ مسئلہ ہے،''ہمارے ہاں وقتی کام ہوتے ہیں پالیسیاں بنتی اور ختم ہو جاتی ہیں۔ جنسی استحصال کے خلاف جو قوانین بنائیں گئے ہیں، ان کا نفاذبہت ضروری ہے۔‘‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ آرٹیکل 25 اے کی رو سے ریاست بچوں کی حفاظت کو یقینی بنائے،'' اب تک غیر سرکاری تنظیمیں ہی بچوں کے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ حکومت اور پیمرا کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں۔ قوانین کے نفاذ کے ساتھ شہروں اور دیہی علاقوں میں بھی آگاہی مہم چلائیں، سروسز مہیا کریں تا کہ اس جرم کا جڑ سے خاتمہ ہو۔‘‘
جنسی زیادتی ایک سنگین جرم ہے لیکن پاکستان میں اس جرم کی سزا دینے کی شرح انتہائی کم ہے۔