’جنسی زیادتی‘ چودہ سالہ بچے نے خود کشی کر لی
15 اگست 2015خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ پاکستانی شہر خانپور میں اس واقعے کے رونما ہونے کے بعد ایک پولیس اہلکار کو معطل کر دیا گیا ہے۔ پولیس نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس اہلکار کو غلفت برتنے کی وجہ سے معطل کیا گیا ہے۔ اکرام صوبہ پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کے شہر خانپور میں ایک فرنیچر ورکشاپ پر کام کرتا تھا۔
ہفتے کے دن اکرام کے والد محمد اقبال نے بتایا کہ اس کے بیٹے کو دو دن قبل اغوا کیا گیا تھا اور اس دوران اسے اجتماعی طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ دو دن بعد اغوا کاروں نے اکرام کی حالت خراب ہونے کے بعد اسے ان کے گھر باہر پھینک دیا گیا تھا۔ ان دونوں باپ بیٹے نے خانپور کے ایک مقامی پولیس اسٹیشن سے رابطہ کیا لیکن وہاں فوری طور پر ان کی بات نہ سنی گئی۔
بظاہر پولیس کی طرف سے غفلت برتنے پر اکرام نے جمعے کے دن ٹرین کی پٹری پر اپنی جان دے دی۔ اکرام کے گھر والوں اور دیگر رشتہ داروں نے اس کی لاش کو لے کر ایک ہائی وے بلاک کرتے ہوئے احتجاج شروع کر دیا تھا۔ یہ احتجاجی مظاہرہ اس وقت ختم کیا گیا، جب پولیس کے اعلیٰ افسران نے انہیں یقین دلایا کہ اس کے بیٹے کے اغوا کاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
اقبال نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تین افراد کے ایک گروہ نے جھانسہ دے کر میرے بیٹے کو اغوا کیا۔ اقبال کے بقول اغوا کار ایک دروازہ مرمت کرانے کے بہانے اکرام کو ساتھ لے کر گئے اور پھر دو دن تک اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا، ’’اکرام نے اس وقت خود کشی کی جب پولیس اہلکاروں نے رپورٹ درج کرنے سے انکار کیا اور الٹا اس کے ساتھ ناروا سلوک برتا۔‘‘
میڈیا پر اس خبر عام ہونے کے بعد مقامی پولیس نے اغوا اور زیادتی کے شبے میں ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کر لیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ایک پولیس اہلکار کو معطل بھی کر دیا گیا ہے۔ ضلعی پولیس افسر طارق مستوئی نے کہا، ’’ایک پولیس اہلکار نے ایف آئی آر درج کرنے میں ہچکچاہٹ ظاہر کی تھی۔ اسے اس غلفت پر معطل کر دیا گیا ہے۔ اس کیس کو باقاعدہ طور پر درج کرنے کے بعد ایک مشبہ شخص کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے۔‘‘
پاکستانی صوبہ پنجاب میں جنسی زیادتی کا یہ نیا مبینہ واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے، جب گزشتہ ہفتے ہی شہر قصور میں بچوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر جنسی زیادتی کے واقعات پر جیوڈیشل انکوائری کا حکم دیا گیا ہے۔ پاکستان میں بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے ساحل کے مطابق گزشتہ برس ملک بھر میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے ساڑھے تین ہزار سے زائد کیس درج کیے گئے تھے جبکہ ایسے کیسوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔